مری اپنی خوبصورتی اور رعنائیوں میں اپنی مثال آپ ہے، یہی وجہ ہے کہ شمالی پنجاب کا یہ سیاحتی مقام سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ موسم سرما میں ملک بھر کے مختلف شہروں سے لاکھوں سیاح برفباری اور قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے مری کا رخ کرتے ہیں اور امسال بھی سیاحوں کی بڑی تعداد مری پہنچی۔ عام طور پر مری میں تقریباََ 4 سے 5 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہے تاہم سیزن میں سڑکوں اور دیگر ملحقہ علاقہ جات میں پارکنگ کی وجہ سے 10 ہزار سے زائد گاڑیاں مری میں سما جاتی ہیں۔ معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب ضرورت اور وسائل سے زیادہ سیاحتی گاڑیاں مری میں داخل ہوتی ہیں۔ کسی بھی سیاحتی مقام کی بقا اور کشش اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہاں سہولیات کی بلاتعطل فراہمی اور ضروری وسائل موجود ہوں، مری کے کاروباری طبقے اور مری کے رہائشیوں کے سرد مہرانہ رویوں سے ملک بھر کے سیاح پہلے ہی نالاں تھے، امسال مری جیسے جنت نظیر سیاحتی مقام نے سیاحوں کو قدرے خوف زدہ کر دیا ہے جس کہ وجہ برف باری میں پھنس کر 22 سیاحوں کا جان توڑ دینا ہے۔
بلاشبہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس مملکت کے باسیوں کو زیادہ تر مسائل نے ہی گھیرا ہوتا ہے، ایسے میں اگر کوئی تفریح کا موقع ہاتھ آ جائے تو ہماری عوام اسے موقع غنیمت جانتے ہوئے ”بہتی گنگا” میں ہاتھ دھونے کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔ مری سانحے میں اگرچہ تمام تر ملبہ انتظامیہ اور حکومت پر ڈالا جا رہا ہے لیکن عمیق نگاہی سے جائزہ لیا جائے تو عوام کا قصور بھی دیکھنے کو ملے گا۔ مری سانحے میں کون کتنا ذمہ دار تھا اور کس کا کیا کردار تھا اس کی تحقیقات کیلئے ”وسیم اکرم پلس” وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے اور ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بعد از سانحہ ہنگامی اقدامات پر کمر بستہ ہو گئے ہیں۔ حکومتی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کی تحقیقات میں کونسا ”چوہا” نکلتا ہے یہ تو وقت بتائے گا البتہ بحیثیت تحقیقاتی صحافی اور مری تحصیل مری کے رہائشی کے طور پر مری کا جو اصل نوحہ ہے وہ میں آپ کے سامنے پیش کرنے لگا ہوں۔
مری میں ہر سال دو سیزن سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں اور یہ سیزن موسم گرما اور موسم سرما کا سیزن ہے، موسم گرما میں بھی سیاح بڑی تعداد میں مری کا رخ کرتے ہیں تاہم ٹریفک منیجمنٹ کے علاوہ کوئی بڑی بد انتظامی دیکھنے میں نہیں آتی، مری کا دوسرا اور بڑا سیزن موسم سرما یعنی برفباری کا ہوتا ہے۔ برفباری دیکھنے کے شوقین افراد کیلئے مری تک رسائی دیگر شمالی علاقہ جات کی نسبت آسان اور ارزاں ہے۔ مری میں سیاحون کو بہم سہولیات پہنچانے، کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے اور ٹریفک کی روانی کو جاری رکھنے کیلئے پنجاب حکومت ہر سال کروڑوں روپے کا فنڈ مختص کرتی ہے۔
مری انتظامیہ میں ٹریفک پولیس، مری پولیس، پراونشل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ اور آئیسکو وغیرہ سر فہرست ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہیں عام شہروں کی نسبت زیادہ حکومتی فنڈز اور وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ ان تمام اداروں میں سرفہرست پراونشل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ مری/ راولپنڈی ہے۔ پراونشل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کے دو یونٹس مری میں کام کر رہے ہیں ایک روڈز ڈویژن ہے اور دوسرا مشینری ڈویژن، برفباری کے سیزن میںپراونشل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کا کام 80 فیصد اور بقیہ تمام انتظامی اداروں کا کام 20 فیصد ہوتا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں پورا پنجاب نظر انداز کرتے ہوئے پراونشل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ مری کو 45 کروڑ روپے سے زائد کی خطیررقم کا بجٹ دیا گیا جس کا مقصد شاہرات کی حالت زار اور موسم سرما میں برفباری ، سڑکوں کی صفائی و دیگر امور سے نمٹنا تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور کروڑوں روپے کا یہ بجٹ ادارے میں بیٹھے ”سفید ہاتھی” کھا گئے۔ میں گزشتہ 8 سال سے کمیونی کیشن اینڈ ورکس(C&W) کی بیٹ رپورٹنگ کر رہا ہوں اس حوالے 10 نومبر 2021 کو ہی ایک خصوصی رپورٹ بھی شائع کر چکا تھا جس میں مری میں ممکنہ صورتحال کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا، یہ تحقیقاتی رپورٹ ریکارڈ پر ہے۔ متذکرہ بالا بجٹ میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت، پیچ ورک، برف صاف کرنے والی مشینری کی مرمت ، برف صاف کرنا، ٹریفک کی روانی کی ممکن بنانا اور نمک کا چھڑکائو وغیرہ شامل تھالیکن سب اچھا ہے کی رپورٹ پیش کرکے افسرشاہی فنڈز پر ہاتھ صاف کرتی رہی اور نوبت سانحہ مری تک آ پہنچی ۔
قارئین کرام! مری کا نوحہ بھی وہی ہے جو پورے پاکستان کا نوحہ ہے اور یہ نوحہ کرپشن ہے۔ اگر آپ نے برف میں پھنس کرخاندان سمیت وفات پا جانے والے مرحوم اے ایس آئی کی آخری کال ریکارڈنگ سنی ہو تو آپ میر ا مدعا سمجھ جائیں گے کہ مرحوم یہی شکایت کرتا رہا کہ 9 گھنٹے سے برف میں پھنسے ہیں اور محکمہ ہائی کی برف صاف کرنے والی مشین دور دور تک نظر نہیں آئی۔ مری میں جو کچھ ہوا اس کا سب سے بڑا ذمہ دار پراونشل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں ایک خاص افسر نے نا تجربہ کار نئے بھرتی شدہ ملازمین کو اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے ڈویژن میں صرف اس لئے رکھا ہوا ہے کہ بندر بانٹ میں آسانی رہے۔ بطور بیٹ رپورٹر حقائق حکام بالا کے سامنے پیش کرنے اور شفاف تحقیقات کے عوامی مطالبے کے باوجود اس ”عجب کرپشن کی غضب کہانی ” پر کان نہیں دھرے گئے۔ میں اپنا صحافتی فریضہ سر انجام دیتے ہوئے مزید حقائق ارباب ختیار اور عوام کے سامنے لاتا رہوں گا۔
اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف، محکمہ ہائی کے بعد دوسری بڑی غلطی ضلعی انتظامیہ یعنی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور ان کی ٹیم کی ہے، اس غلطی میں اسلام آباد کی انتظامیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب مری میں موسم کی سنگینی اور حالات کی خرابی کا ادراک ہو گیا تھا تو 60 ہزار گاڑیوں کے مری میں داخل ہونے کے بعد مزید گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیا جاتا لیکن بقول ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری ”عوامی خوشحالی” کا کس طرح پتہ چلتا؟ ضلعی انتظامیہ نے سنگین غلطی کرتے ہوئے 1 لاکھ سے زائد گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے دیا جس سے پوری تحصیل کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا اور ان ایک لاکھ گاڑیوں میں سوار تقریباََ4 لاکھ سیاحوں کومری کی شاہرات کو بند کئے محکمہ ہائی کی نا اہلی اور کرپشن منہ چڑائے استقبال کر رہی تھی، ایسے واقعات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ کرپٹ افسر شاہی کو نکیل ڈالی جائے۔ دیر آئے درست آئے کے مصداق وزیر اعلیٰ پنجاب نے مری کو ضلع بنانے اور دیگر انتظامی اصلاحات کی منظوری دی ہے۔ یہ مری کے باسیوں اور ملکہ کوہسار ہونے کے ناطے ایک پرانا مطالبہ تھا۔ امید ہے مری کے ضلع بننے سے حالات میں بہتری آئے گی۔