تحریر : شہزاد حسین بھٹی اُجڑے رستے، عجیب منظر، ویران گلیاں، بازار بند ہیں کہاں کی خوشیاں، کہاں کی محفل، شہر تو میرا لہو لہو ہے وہ روتی مائیں بے ہو ش بہنیں ،لپٹ کر لاشوں سے کہہ رہی ہیں اے پیارے بیٹے ،گئے تھے گھر سے،سفید کپڑا تھا سُرخ کیوں ہے 16 دسمبر نے ایک بار پھر وطن کی فضاؤں کو سوگوار کر کے رکھ دیا ہم سانحہ سقوط ڈھاکہ کا ماتم کر رہے تھے کہ اچانک پشاور سے خبر آئی کہ وارسک روڈ پر آرمی پبلک سکول میں جدید اسلحہ سے لیس دہشت گرد داخل ہو گئے ہیں انسان کے روپ میں سفاک درندہ صفت وحشیوں نے میرے ملک کے پھول جیسے معصوم بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے تقریبا ً 144افراد کو ابدی نیند سلا دیا جبکہ تقریبا ً120 افراد کو شدید زخمی کر دیا ۔ پاک افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کا محاصرہ کرکے سات دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا سکول میں موجود بچوں اور اساتذہ کو ایمبولینسوں کے ذریعے لیڈی لیڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا اس وقت قیامت صغراں کا منظر دیکھ کر ہر اہل دل خون کے آنسو رویا تھا ۔شہیدہونے والے بچوں کے والدین اور عزیزو اقارب کی چیخ و پکار نے زمین و آسمان پر لرزا طاری کر دیا۔
ہر آنکھ اشکبا رہوئی پورا ملک ان درندہ صفت دہشت گردوں کی بربریت پر ماتم کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف ہمارے ارباب اختیار حسب روایت مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں فون کرکے اس واقعے کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑمیں شامل نظر آرہے تھے افسوس صد افسوس ہمارے کچھ سیاست دان اس قیامت خیز واقعے پر بھی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف نظر آئے ایک دوسرے پر الزامات کی بوجھاڑ کی جارہی تھی کوئی اسے کے پی کے کی حکومت کی نااہل قرار دے رہا تھا اور کوئی اسے کنٹونمنٹ بورڈ کا ایریا قرار دے کر پاک فوج کے ذمہ دران پر اس واقعے کی نااہلی کا الزام عائد کر رہا تھا ۔ہر کوئی خود کو اس واقعے سے بری الذمہ قر ار دینے میں مصروف تھا ۔حالانکہ میری نظر میں اس سانحہ کے ذمہ دار ہم سب ہیںیہ پورے پاکستان کی انتظامیہ کی نا اہلی ہے یہ تما م پاکستان اور تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کی نا اہلی ہے۔
یہ تمام مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی نااہلی ہے اس سانحہ کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے دہشت گردی پر ہماری مسلسل خاموشی ہمیں اس واقعے کا قصو ر وار قرار دے رہی ہے ہم بے حس اور خو د غرض ہو چکے ہیں ہمارا خون سفید ہو چکا ہے ہم اپنی ذات اور اپنے خاندان تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ہم دہشت گردی کے واقعات کو ٹی وی چینل پرایک تماشائی کی طرح دیکھ کر آنکھیں بند کر کے سو جاتے ہیں کیونکہ اس دہشت گردی میں شہید ہونے والے بچوں کو ہم کسی اور کے بچے سمجھتے ہیں۔
Injuried Child
ہمارا خیال ہے کہ ہمارے لخت جگر تو محفوظ ہیں ہم اس خوش فہمی میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیںلیکن د شمن کی لگائی ہوئی آگ ہمارے گھر کی طرف بڑھے گی تو تب ہمیں دوسروں کے بچوں کا احساس ہو گا دوسروں کے دکھ درد اور کرب کو محسوس کرینگے ابھی تک تو ہم محفوظ ہیںہم اپنی خوش فہمی میں جیئے جا رہے ہیںلیکن یہ ہمارے لیئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ ہمار ا مذہب ہمیں انسانیت کی خدمت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے ہماری تاریخ خدمت خلق کے جذبوںسے بھری پڑی ہے مگر آج ہم اقوام عالم میں بحیثیت مسلمان ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں دہشت گردوں کو ہمارے مذہب کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے اس میں غیروںکی نہیں ہمارے اپنوںکی کارستانیا ں ہیںہم دہشت گردی کے معاملات میں تقسیم ہو چکے ہیںکچھ مذہبی رہنما اور سیاسی رہنما درپردہ دہشت گردی کے بارے میں جو نرم رویا رکھتے ہیں وہی ہماری تباہی کا باعث بن رہا ہے کاش تمام مکاتب فکر کے علماء اِسی ایک نقط پر متحدہ ہو جائیں دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس انتہا پسندی اور دہشت گردی سے چھٹکار ا حاصل کر سکتے ہیں۔
آئے روز کے سانحے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کر رہے ہیںاگر ہم ایک قوم بن کر سوچیں دوسروںکے دکھ درد کو سمجھیں تو یقیناہماری صفوں میں چھپے ہوئے یہ مٹھی بھر شر پسند عناصر تنہا ہو کر اپنی موت آپ مر جائیںگے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کوئی سانحہ رونما ہو جانے کے بعد حفاظتی اقدامات اُٹھاتے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے سانحہ پشاور کے بعد منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس سے قبل دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث دہشت گردوں کو دی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ بڑی خوش آئند اور حوصلہ افزا اقدام ہے دیر آئید درست آئید ۔اگر ان 2000 سے زائد دہشت گردوں کو جو کہ ملک بھر کی جیلوں میں عرصہ دراز سے قید ہیں اگر انہیں بر وقت سزائے موت دے دی جاتی تو آج حالات کچھ مختلف ہوتے انہی دہشت گردوں کو چھڑانے کے لیئے بنوں اور دیگر جیلوں پر دہشت گردانہ حملے ہوئے اور ملکی سا لمیت داؤ پر لگی ہم بین الاقوامی دباؤ میں آ کر ان جہنمیوں کو سزائے موت نہ دے سکے ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ فوراً ہی ان جہنمیوں کو چوکوں میں لٹکائے اور ثابت کرے کہ وہ قانون پر عمل درآمد کروانا جانتی ہے اور دہشت گردوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ یہ قوم متحد ہے اور اس کا بچہ بچہ اس ملک کے لیئے جان دے سکتا ہے ان ننھے معصوم شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا ظلم پھر ظلم ہے بڑھتاہے تو مٹ جا تا ہے دہشت گردی کے خلاف ہماری تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے دہشت گردی کے ایشو پر بلائی جانے والی کانفرنس میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے امید ہے کہ اس کانفرنس سے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہونگے ہمیں اپنے گھر کو دیکھنا ہو گا کب تک مائیں اپنے لخت جگر قربان کر تی رہیں گی ؟کب تک ملک میں خون بہتا رہے گا سری لنکا نے پچیس سال تک تامل ٹائیگر کا مقابلہ کیا اور آخر کا ر دہشت گردی پر قابو پا لیا انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے دشمن کی تمام چالیں اُلٹی پڑ جائیں گی۔ ماں یونیفارم پر تھوڑی سیاہی گر گئی ڈانٹنا مت ماں آج یونیفارم پر خون گر گیا پلیز رونا مت۔