تحریر : عماد ظفر بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں ہونے والا حادثہ جس میں کئی اموات واقع ہوئیں، 150 کے قریب افراد زخمی ہوئے اور درجنوں عمر بھر کیلئے معذور ہو گئے بالآخر میڈیا کی توجہ کا زینت بن ہی گیا. چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر واقعے کی رپورٹ طلب کر لی.یہ سانحہ 28 اپریل کی شام کو اس وقت پیش آیا جب بحریہ ٹاؤن اسلام آباد کی انتظامیہ اور ایک ٹی وی چینل اے آر وائی ملکر رمضان کیلئے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کر رہے تھے. ریکارڈنگ کے دوران سٹیج اور اس پر نصب بھاری آلات وہاں موجود حاظرین پر گر پڑے اور یوں اکثر افراد اس سٹیج کے ملبے تلے پھنس گئے.
بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے فوری طور وہاں موجود لائٹس بجھا دیں تا کہ کوئی بھی اس واقع کی وڈیو ریکارڈنگ یا تصاویر نہ بنانے پائے. بتیاں بجھانے کے اس عمل سے لوگوں میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا اور افراتفریح و بھگدڑ کے باعث مزید افراد زخمی ہو گئے. اگر ذرائع کی اطلاعات درست ہیں تو پھر اس واقعے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بتائی جانے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہے.کئی افراد ریڑھ کی ہڈی یا ٹانگیں بری طرح تڑوانے کے بعد عمر بھر کیلئے اپاہج بن چکے ہیں.ایک حاملہ خاتون اس سانحے میں نہ صرف حمل ضائع کروا بیٹھیں بلکہ عمر بھر کیلئے معذور بھی بن بیٹھی.اس نوعیت کی کئی کہانیاں اور بھی ہیں جنہیں ابھی پردہ عام پر آنا ہے.
حیرت انگیزّطور پر اس سانحے کی کوئی خبر یا رپورٹ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر نہ تو نشر کی گئی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی تبصرہ دیکھنے یاپڑھنے کو ملا. یہ خبر عوام تک تب پہنچی جب اس حادثے کے ایک عینی شاہد نے واقعے کے چند وڈیو کلپس انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کہئے اور یہ وڈیو کلب فورا ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے. سوشل میڈیا پر خبر مشہور ہونے اور عوام کے میڈیا پر اس خبر کو بلیک آؤٹ کرنے کے غم و غصہ نے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو بالآخر قریب ایک ہفتے بعد اس خبر کی معمولی کوریج کرنے پر مجبور کر دیا.
مین سٹریم میڈیا کا اس سانحے کو نظر انداز کرنا اور اسے کوریج نہ دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا واحد مقصد منافع کا حصول ہے اور روپے پیسے کے حصول کیلئے صحافت کے ہر اصول کو باآسانی بالائے طاق رکھا جا سکتا ہے. بحریہ ٹاؤن کی ایڈورٹائزنگ کی مہم ہر بڑے اور چھوٹے ٹیلیویژن اور اخبار میں چلائی جاتی ہے اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف کوئی بھی خبر دینے کا مطلب سیدھا سیدھا اس رقم سے محرومی ہے. غالبا عوام کو اب اچھی طرح اندازہ ہو جانا چائیے کہ میڈیا ہر اس طاقتور اور مالی طور پر مستحکم فرد یا ادارے کی گھر کی لونڈی ہے جو اس کو کسی بھی صورت روپیہ پیسہ یا دیگر مراعات فراہم کرتا ہے.
دوسری جانب اے آر وائی جو کہ ہر وقت حکومت کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے اور اخلاقیات و کرپشن کے بھاشن دیتا پایا جاتا ہے اس نیوز چینل کی جانب سے نہ تو اس سانحے پر کسی بھی قدم کے افسوس کا اظہار کیا گیا اور نہ ہی کسی بھی قسم کی معزرت انتظامیہ کی جانب سے نشر کی گئی. تاحال پولیس اس سانحے کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکاری ہے کیونکہ درخواست گزار اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال اور بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو ایف آئی آر میں نامزد کرنا چاہتے ہیں.چونکہ اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض دونوں ہی بااثر شخصیات ہیں اس لیئے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان افراد یا ان کے اداروں کے خلاف کاروائی تو دور کی بات ایک رپورٹ تک درج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے. اس سانحے میں اگر ملک ریاض کاـادارہ ملوث نہ ہوتا تو اے آر وائی کے کاروباری مخالف چینل ابھی تک اس سانحے کے بارے میں دن رات کوریج کرنے کے بعد اس سانحے کو ایک عظیم سانحہ قرار دیتے ہوئے اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال کی کیریکٹر اساسینیشن کر چکے ہوتے. لیکن بحریہ ٹاؤن کے نام کی وجہ سے میڈیا پولیس اور دیگر اداروں کو سانب سونگھ گیا جو کہ ملک ریاض کے قانون سے بالاتر ہونے اور اس کی بے پناہ طاقت و اثرو رسوخ کا منہ بولتا ثبوت ہے. ملک ریاض کو قانون سے بالاتر بنانے میں قصور کس کا ہے اس کا جواب ہمارے فرسودہ گلے سڑے نظام اور ہمارے اجتماعی رویوں میں موجود ہے.
ہم لوگوں کی بااثر اور مالدار شخصیات کو سلامیاں ٹھوکنے کی عادت، اور رشوت اور غیر قانونی طور پر پیسہ کمانے یا پھر اس عمل کے خلاف کوئی صدا نہ بلند کرنا دراصل ملک ریاض جیسے افراد کو جنم دیتا ہے جو آگے چل کر قانون سے بالاتر ہو جاتے ہیں . ملک ریاض کی ایک عام سفید پوش آدمی سے ملک کے امیر ترین اور بارسوخ آدمی بننے تک کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور ہماری معاشرے اور نظام کے کھوکھلے پن کا ثبوت بھی ہے. یہ غالبا 1979 کی بات ہے جب ملک ریاض نے اپنے ایک دوست سے 1400 روپے کا قرضہ لے کر ملٹری انجینئرنگ کمپلیکس میں ایک ٹھیکہ پکڑا. آج کے پاکستان کا امیر ترین آدمی اور پراپرٹی کے کاروبار کا بادشاہ تیس سال قبل تک غربت کے ہاتھوں مارا مارا پھرتا تھا. اپنی بیٹی کو ہسپتال لے جانے کیلئے اس کو اپنی بیوی کا زیور تک بیچنا پڑ گیا. پھر اس معمولی سے ملٹری سپلائی ٹھیکے سے آغاز ہوا ایک سب سے بڑی پراپرٹی کاروباری سلطنت کا.ملک ریاض نے اس ٹھیکے کے بعد فوج میں اپنے تعلقات بہتر کیئے اور آہستہ آہستہ کنسٹرکشن کے کام کی جانب بڑھا. ملک ریاض نے غربت دیکھی تھی وہ جانتا تھا بچوں کی بھوک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بڑا عذاب نہیں ہوتا. اس نے بہت جلد سیکھ لیا کہ یہ ملک اور معاشرہ حیثیت اور مرتبے کو سلام کرتا ہے.آہسته آہسته ٹھیکیداری سے ہاوسنگ سوسائٹی کی تعمیر کی جانب ملک ریاض نے سفر شروع کیا. تعلقات اور پیسے کے بل پر بحریہ کا نام استعمال کر کے ملک کی سب سے بڑی ہاوسنگ کالونی بنا ڈالی.پاک بحریہ نے اپنے نام کے استعمال کے خلاف ملک ریاض پر کیس بھی کیا لیکن جو جج کیس سننے آتا وہ ملک ریاض سے یا تو پلاٹ لے چکا ہوتا یا پھر مالی فائدہ. ملک ریاض نے ملٹری ایسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی ایسٹیبلیشمنٹ کے گٹھ جوڑ سے اپنے کاروبار کو پھیلایا. باری ملک،ظفر سپاری اور تاجی کھوکھر کے زریعے ملک ریاض نے زمینوں پر قبضے بھی کیئے اور مہنگی زمینیں زبردستی سستے داموں بھی ہتھیائیں. جہاں کوئی قانونی رکاوٹ ملک ریاض کے سامنے آئی ملک ریاض نے پیسے کی طاقت سے اسے دور کر دیا. صحافیوں سے لیکر پولیس سیاستدانوں سے لیکر بیوروکریسی اور ملکی فوجی ایسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ملک ریاض نے منافع کا رشتہ جوڑا ،پیسہ پلاٹ اور گھر بانٹے.
یوں آج ملک ریاض پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک شمار ہوتا ہے. ملک ریاض کی کامیابی ناجائز ہے یا جائز اس کا جواب یہ گلا سڑا نظام واشگاف الفاظ میں دیتا ہے. ایک معمولی سے ٹھیکیدار نے اس نظام کو بہت پہلے اچھی طرح سے جان لیا تھا جب وہ روزگار کیلیے دھکے کھاتا تھا اور اپنی بیٹی کا علاج تک کروانے سے قاصر تھا.ایسے میں اگر اس نے عقلمندی سے ایک بزنس ایمپائر کھڑی کی تو اس کا کریڈٹ اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا. کتنے ہی ٹھیکیدار پاکستان میں یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ ملک ریاض جیسی بزنس ایمپائر کھڑی کر سکیں. ایمانداری پر بھاشن دیتے ریٹائرڈ جرنیل لفافہ صحافی اور سول سوسائٹی والے کیا بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت کون سا ایسا بڑا کاروباری آدمی ہے جس نے اپنی بزنس کی سلطنت قانون اور اخلاقیات کی حدود میں رہ کر کھڑی کی ہو. میاں نواز شریف ہوں یا میاں منشا، عقیل کریم ڈیڈی ہوں یا پھر جہانگیر ترین یا پھر میڈیا کے بڑے بڑے بادشاہ میر شکیل سلطان لاکھانی اور میاں عامر ،ان سب نے بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق جہاں رشوت دھونس دھاندلی چل سکتی تھی چلائی اور آج یہ سب بھی کامیاب ہیں. ملک ریاض کی دولت کمانے کے طریقے یقینا ناجائز ہیں لیکن یہ نظام دولت کمانے کا کون سا جائز راستہ کسی سفید پوش آدمی کو دیتا ہے.
معمولی سے معمولی کام کیلئے پیسے تعلق اور دھونس کی ضرورت ہوتی ہے.اور ملک ریاض تو علی اعلان گزشتہ تیس برس سے یہ سب کر رہا ہے اور مانتا بھی ہے. ملک ریاض نے اپنی سمجھ سے کام لیتے اس لولے لنگڑے نظام میں سے اپنا حصہ لے لیا.اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ نظام طاقتور کیلیے ہے کمزوروں کیلیے نہیں.رشوت بدعنوانی کے خلاف دہائیاں اور اخلاقیات کے بھاشن ٹی وی سکرینوں کالمز سوشل میڈیا اور ایک دوسرے سے بحث میں تو اچھے لگتے ہیں لیکن حقیقت سے اور عملی زندگی سے ان کا دور دور کا بھی واسطہ نہیں.بچے کے برتھ سرٹیفیکیٹ سے لے کر علاج معالجہ سکول داخلے سے لے کر نوکری تک قدم قدم پر رشوت کا سہارا لیں یا پھر کسی طاقتور کے منت ترلے کریں یا ہاتھ پھیلائیں. ایسے نظام میں شرافت ایک کمزور آدمی کی ہی پہچان ہو سکتی ہے یا ایسے آدمی کی جسے رشوت بدعنوانی یا داو لگانے کا موقع نہ ملا ہو. ملک ریاض کو آپ برا کہیں یا بھلا اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اپنے آنی والی نسلوں کو بھی مضبوط اور مستحکم کر گیا ہے.جو آدمی چند دہائیوں قبل بچوں کا علاج معالجہ نہیں کروا سکتا تھا آج اس کی خیرات سے ہزارہا بچوں کا علاج معالجہ ہوتا ہے اور یہ اس کی کامیابی کا ناقابل تردید ثبوت ہے.
باقی قانون کی بالادستی کی باتیں اخلاقیات کے بھاشن رشوت خوری ایک جرم، جیسے نعرے صرف اور صرف کمزور افراد کو اس کھوکھلے نظام کی کھونٹی سے باندھے رکھنے کیلئے ہیں.ملک ریاض کو اس کھوکھلے نظام نے جنم دیا ہے اس گلے سڑے نظام کو تبدیل کر کے سب کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے تو آئیندہ ملک ریاض پیدا نہیں ہوں گے. بحریہ ٹاؤن کا سانحہ ملک ریاض جیسے آدمی کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا اور چند دنوں میں ہی وہ اس معاملے کو دبا دے گا کیسے اس نے چند سال پہلے بحریہ ٹاؤن میں ایک کار ریس کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے کو دبایا تھا.ویسے بھی جہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات کے مرکزی مجرموں کا تعین نہ ہو سکے 12 مئی جیسے واقعات کے زمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں نہ لایا جا سکے سکے تو موجودہ بحریہ ٹاؤن سانحہ تو ان سانحات کے سامنے کچھ بھی نہیں. بحریہ ٹاؤن سانحے کو لیکر ملک ریاض یا اس کے ادارے کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیے اور ایمانداری سے بتائیے کہ کیا اپنی اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق ہم بھی اس کی طرح قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں نہیں بکھیرتے؟ اور کیا ہم بھی اپنے دوست رشتہ داروں کو قانون کی گرفت سے دور رکھنے کیلئے ہر قسم کی کوشش نہیں کرتے؟ غور سے دیکھئے گا ملک ریاض اور اس جیسے دیگر افراد ہم سب کی زات کے اس حصے عکس ہیں جسے ہم جانتے بوجھتے دیکھنا ہی نہیں چاہتے.