تحریر: فرخ شہباز وڑائچ ان دنوں جب ہر سو افراتفری کاعالم ہے الیکٹرانک میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایسے میں شہر کے ایک ہوٹل میں ایک تربیتی پروگرام کا کامیاب انعقاد کسی نعمت سے کم نہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک جاندار محفل میسر آئے گی۔ کیونکہ جذبے سچے ہوں تو نتیجہ بھی یقیناً اچھا ہی آتا ہے۔ ان سطور کے لکھنے والے کو شکریہ ادا کرنا ہے۔ (پی ایف یو سی) پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کا جنہوں نے ایک بار پھر سے مکالمے کی روایت کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس فورم کی بنیاد رکھتے ہوئے کارزار صحافت کے جن بزرگوں نے شفقت سے ہمارا ہاتھ تھاماتھا، ان میں محترم حافظ شفیق الرحمن کانام سب سے پہلے آتاہے۔ سچ پوچھیں تو یہ فورم ایسے ہی مہربان دوستوں اور بزرگوں کی محبت کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ خیر بات ہو رہی تھی تربیتی نشست کی اسی نشست میں عرض کیا کہ اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہئے لیکن حدود و قیودبھی طے ہونی چاہئے۔ جہاں ہمارا معاشرہ ہر طرح سے پستی کا شکار ہو رہا ہے تو اس پستی کا اثر میڈیا پر بھی ہوا ہے اور جب معاشرے تباہی کی طرف جا رہے ہوں تو وہاں کچھ محفوظ نہیں رہتا وہاں ”آزادی” کو اسی طرح سے ڈھال بنایا جاتا ہےمحترم سلمان عابد نے ”اظہار رائے کی آزادی”جیسے اہم موضوع پر بڑ ی خوبصورت باتیں کیں کہ جمہوریت رائے کے اظہار کی آزادی تودیتی ہے مگر یہ آزادی مادرپدرآزادی نہیں ہے کہ کوئی پوچھ گچھ ہی نہ ہو۔اگر آپ کے قول یا تحریر سے کوئی شخص متاثر ہورہا ہے تو آپ اْس آزادی کی حد سے آگے جا رہے ہیں۔
ہر ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ ریاست اپنے ریاستی میڈیا کو قواعد وضوابط کا پابند بناتی ہے اور پھر پرائیویٹ میڈیا ریاستی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اْن قواعد وضوابط کا خیال رکھتا ہے۔اس کے علاوہ میڈیا کے اپنے بھی کچھ قواعد وضابط ہوتے ہیں جن کی پاس داری میڈیا گروپوں پر لازم ہوتی ہے۔مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ہورہا ہے۔پرائیویٹ میڈیا ہمارے ریاستی میڈیا کو ڈکٹیٹ کررہا ہے۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ میڈیا ریاست کی پالیسی کے مطابق کام کرے جیسے امریکہ اور باقی یورپیئن ممالک میں ہوتا ہے۔اسی طرح میڈیا کو تنقید کا تو حق ہوتا ہے مگر آج کل تنقید اپنی حد پارکرکے ”تضحیک”کے درجے میں پہنچ گئی ہے جو بہت پریشان کن بات ہے۔ہمارے ہاں اکثرکالم نگار صرف اپنی تحریر کو سچ مانتے ہیں اور کسی کی کوئی بات بھی انہیں سچ نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہورہا ہے۔اسی طرح میڈیا کی آزادی کے حوالے سے یہ بات بہت حد تک نقصان دہ ہے کہ ایڈیٹر انسٹی ٹیوشن ختم ہوگیا ہے۔
Columnist
ایسے کالم لکھے جانے چاہئے جس سے سوسائٹی تقسیم درتقسیم نہ ہو اور متحد ہوسکے۔ریاست کی پالیسی کے مطابق کام کریں خاص کر قومی سلامتی کے امور کے بارے میں تو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ جگ ہنسائی کا موقع کسی کو میسر نہ آئے۔
نئے لکھنے والوں کے لیے بزرگوار سجاد میر کاکہا گیا آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ پیار بھرا گلہ بھی بہت اہم ہے کہ ہمارے نوجوان مطالعہ نہیںکرتے ۔ اپنی تاریخ سے آگاہ نہیں ہیں، اپنے ادیبوں تک سے آگاہ نہیں ۔ اس حوالے سے دو واقعات کاسامنا تو مجھے بھی کرنا پڑا۔ زیادہ دور نہ جائیں پنجاب یونیورسٹی شعبہ جرنلزم کے کمرہ جماعت میں تاریخ کے معلم نے سقوط ڈھاکہ جیسا نازک موضوع چھیڑ دیا۔
طلباو طالبات کے چہروں کی ”دلچسپی ” تو خوب عیاں تھی ۔ اس پہ ستم یہ کہ معلم نے مستقبل کی ”اینکرانی ” سے سوال کرڈالا یہ شیخ مجیب الرحمن نے سقوط ڈھاکہ میں کیا کردار ادا کیاتھا اور ان دنوں موصوف کس نجی چینل پر پروگرام کررہے ہیں ؟ انگلی منہ میں دابے ”فیوچر اینکرانی” نے الفاظ کو خوب چبا کر کچھ یوں موتی بکھیرے” سر وہ آج کل فلاں چینل پر سیاسی پروگرام کرتے ہیں”۔ دوسرا دلخراش واقعہ بھی سن لیجیے ۔ شہر لاہور میں قائم تاریخی درس گاہ کے جرنلزم کے طلبا جو ماسٹر ڈگری وصول کرنے کے قریب ہیں معلم پوچھتا ہے۔
نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف کون تھے ،ان دنوں مجید نظامی مرحوم کی وفات ہوئی تھی۔ صحافت کے ایک طالب علم کا جواب کچھ یو ں تھا ۔ مجید الرحمن شامی ۔۔۔ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں۔ دردناک حقیقت یہ ہے کہ دھڑا دھڑصحافت کی ڈگریاں دے کر فیلڈ میں بھیج رہے ہیں۔ ریڈی میڈ صحافیوں کا حال یہ ہے نہ کوئی تاریخی حوالہ یاد ،اُردو سے نابلد، انگریزی سے دشمنی کی حد تک نفرت مگر ٹی وی پر آنے کاشوق ہے۔ صورت حال اتنی تیزی سے پستی کی جانب جارہی ہے مگر ہمیں ادراک نہیں۔ ایسے کڑے وقت میں نوجوان قلم کاروں نے یہ مکالمے کی محفل منعقد کروا کر صحیح معنوں میں کارنامہ کر دکھایاہے۔ بلاشبہ ایسی محفلیں ہی زندہ معاشروں کا حسن ہوا کرتی ہیں۔