اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد ثناء اور نبی ء رحمت جناب سرور کائنات ۖکی بابرکات ذات پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے حالیہ انتخابات کے حوالہ سے ہونے والی عدم برداشت اور میں نہ مانوں کی فضاء دیکھتے ہوئے چند سطور نذر قارئین کی ہیں امید ہے قارئین کرام اپنی آراء سے حسب روایت نوازتے رہینگے۔
پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ کوئی بھی کسی میدان میں بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں دیسی کشتی کبڈی کرکٹ میچ یا سیاسی ٹاکرا ان میں سے کوئی بھی ہارنے والا ہمیشہ تھرڈ ایمپائر کی طرف دیکھتا ہے اپنی ہار کو نہ ماننے کی اپیل کرتا ہے اور کبھی کبھار ایمپائر کی انگلی اس کے حق میں بھی اٹھ جاتی ہے مگر یہ رواج نہیں بننا چاہیے پورے ملک میں عام انتخابات میں بھی جن کو عوام نے رد کردیا ہے وہ اپنی شکست مان لینے کو تیار نہیں کہیں دھاندلی کا شور ہے تو کہیں سیاسی دھڑوں کی وفا پہ شک ہے کوئی ریٹرننگ آفیسر سے گلہ کرنے کے بجائے اسے تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے تو اسے پارٹی بنا کر بڑی عدالت میں جا رہا ہے یہ سب کیا ہے کیا دنیا میں سارے ممالک انتخابات میں ایسا ہی کرتے ہیں ہرگز ایسا نہیں امریکی انتخابات کو پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا ہارنے والا خود جا کر جیتنے والے کو مبارکباد پیشکرتا ہے اپنے تعاون کا یقین دلاتا ہے مگر یہاں سب الٹ ہے کل جو حکومت میں تھے نگران حکومت انکی مشاورت سے عمل میں آئی انتخابات کا عمل انکی مشاورت سے طے ہوا پھر وہ آج جہاں جہاں سے نہ جیت سکے وہاں دھاندلی کا شور اور جو سیٹ انہوں نے جیت لی وہاں دھاندلی خود کرنے کا اعتراف بھی تو کریں نہ حالیہ انتخابات میں پاک آرمی کے جوانوں اور مقامی پولیس کے آفیسرز نے مسلسل سولہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی کرکے انتخابات کے عمل کو ناقابل اعتراض بنا دیا مگر اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے پاک آرمی کو بھی نہیں بخشا بلکہ آرمی کے ساتھ ساتھ ہماری جوڈیشلری بھی اس وقت انکی سخت تنقید کی زد میں ہے۔
ان مقدس اداروں کے لیے وہ غلیظ زبان استعمال ہورہی ہے جو کسی بھی مہذب شخص کو بولتے ہوئے شرم آتی ہے یا شاید ہم نے مذہب کی طرح اپنی تہذیب کو بھی گروی رکھ دیا ہے ۔میرا تعلق ایک دین دار گھرانہ سے ہے میرے آباء و اجداد میں سے جو بھی تاحال موجود ہیں مساجد میں امامت خطابت اور میری فیملی کے جوان ایم فل کرکے بھی الحمد لللہ مولوی ہی ہیں اللہ کا کرم ہے کہ ابتدائی دینی تعلیم ہمیں گھر سے ہی مل جاتی ہے اس واسطہ سے میں جب سیاسی علماء کرام کو دیکھتا ہوں اور انہیں دین کی کسوٹی پر رکھتا ہوں تو روح تک کانپ جاتی ہے میرے سامنے رسول خدا آقا کریمۖ آجاتے ہیں وہ وقت آجاتا ہے جب آپکے تمام چچا اکٹھے ہوئے اور آپ ۖ سے کہا کہ اے محمد ۖ اگر تو عرب کی حکومت لینا چاہتا ہے تو ہم تجھے اپنا حکمران تسلیم کرکے تیری بیعت کرتے ہیں اگر تجھے مال وزر چاہیے تو ہم تیرے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں اور اگر پورے عرب سے کسی بھی خوبصورت عورت سے شادی کا ارادہ ہے تو ہم کروا دیتے ہیں مگر یہ جو دین کی تبلیغ ہے نا اسے چھوڑ دے میرے اور آپکے بلکہ پوری کائنات کے محسن آقا کریمۖ نے فرمایا کہ اگر میرے دائیں ہاتھ پہ سورج بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دو اور پوری دنیا کا مال وزر میرے سامنے ڈھیر کردو تب بھی مجھے اللہ کا دین پھیلانا ہے۔
اسکے بعد آپ ۖ کو جو اذیتیں دی وہ آج کا ملاں سن کر بھاگ جائے اور یہ نام نہاد ملاں اقتدار کی ہوس میں دین کیا اپنی عزت بھی خاک میں ملائے پھرتے سیاست میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے ملائوں کو کبھی دیکھنے کا موقع ملے تو یہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں ادا کرتے ہر ملاں خود کو دوسرے سے افضل سمجھتا ہے مگر غیر اسلامی نظام میں جہاں نہ تو اسلامی قوانین ہیں اور نہ ہی اسلامی جمہوریت دوسرے سیاسی لیڈرز کو کنجر اور دلا کہنے والے ملاں آج انہیں کے تلوے چاٹ رہے ہیں تیل سے مشہوری پانے والے ملاں نے تو اپنی سیٹ ہارنے پر الیکشن کے سارے عمل کو غیر شفاف قرار دے دیا اور جو ملاں ختم نبوت کے مسئلہ کو لے چلا اوریہ چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں وہ ملاں جی بھی اس چکر میں ہیں کہ کوئی پارٹی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرکے کسی نہ کسی طرح اقتدار کی کرسی تک پہنچ جائوں راستہ جو بھی اپنانا پڑے جب ہمارے علامء و مشائخ اقتدار کی ہوس میں اس حد تک گر جائیں تو ایک دینا دار سیاست دان جو ریٹرننگ آفیسر کے سامنے ہوئے پہلا کلمہ نہیں سنا سکتا اسکا چیخنا چلانا تو پھر جمہوری حق ٹھہرا ہر گز نہیں ہمیں اب اس جھنجٹ سے باہر نکلنا ہو گا۔
انتخابات ہو چکے جن لوگوں کے پاس اکثریت ہے وہ بنائیں حکومت اور یہ انکا حق ہے اور اپنے منشور میں جن اصلاحات کا انہوں نے وعدہ کیا ہے اسے پورا کرنے کا وقت دیا جائے ناکہ تھیلے کھولتے بند کرتے ہی وقت گزر جائے اور پھر وہ بھی مظلوم بن جائیں کہ ہمیں تو کسی نے کرنے نہیں دیا بھٹو صاحب مرحوم سے بڑا انقلابی لیڈر شاید کوئی نہ ہی ہو انہوں نے عوام کو زبان دی روٹی کپڑے اور مکان کا منشور دیا اپنے منشور پر وہ کس حد تک کامیاب ہوئے معلوم نہیں انکے انجام سے واقف ہوں میں ان کے بعد مر د مومن ضیاء الحق نے ان کے مخالف تمام باقیات کو اکٹھے کر کے اک نیا اسلامی جمہوریہ پاکستان بنایا جس کی سزا ہم کئی نسلوں سے بھُگت رہے ہیں اب بھی اس بائیس سال کی مسلسل محنت کے بعد اگر کپتان نیا پاکستان بنانے چلا ہے تو اسے اپنے منشور پر عمل پیرا ہونے کیلئے مناسب وقت دیا جائے یہ عدم برداشت میں نہ مانو ں کی روایت کو چھوڑنا ہوگا اور اس پر مکمل اعتماد کر کے اسے کا م کرنے کا موقع دینا ہوگا اگر وہ اپنے منشور پر عمل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو عوام کی خوش بختی کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی بھی خوش بختی ہو گی اور اگر وہ دانستہ عمل نہیں کرتا تو خود سے پہلے آنے والے انقلابی لیڈروں کا انجام وہ ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ (والسلام )