روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے شہروں میں ٹریفک میں بھی اسی تنا سب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرنے اور ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیئے حکومت پاکستان نے قوانین رائج کیے ہوئے ہیں اور ان قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لیے ٹریفک پولیس اور وارڈن کے محکمے بھی قائم کیے ہوے ہیں ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لئے بورڈ وغیرہ آویزاں کیے ہوے ہیں ضلع جھنگ میں ابھی تک ٹریفک وارڈنز تو نہیں آئے لیکن ٹریفک پولیس اس کام کو سرانجام دے رہی ہے سردی۔ گرمی۔ دھوپ۔ چھائوں۔ آندھیاور بارش کی پرواہ کیے بغیر ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے آپ کو اکثر نظر آئیں گے ضلع جھنگ میں ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے الیکٹرک اشارے موجود نہیں یا شاہد یہاں ایسا کوئی روڈ نہیں جہا ں الیکٹرک اشاروں کی ضرورت پٹرے جھنگ میں ایوب چوک ایسی جگہ ہے جہاں سے بہت زیادہ ٹریفک گزرتی ہے۔
لیکن وہاں موجود بس سٹینڈز کی وجہ سے اکثر بلاک رہتی ہے اور پریشر ہارن کے بے دریغ استمال کی وجہ سے قریبی آبادی شور کی آلودگی سے پریشان رہتی ہے ویسے اس شہر میں الیکٹرک اشاروں کا نہ ہونا شہر کے ایم این اے اور ایم پی اے کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے شہر کی تعمیر وترقی میں کس لگن اور ایمانداری سے حصہ لیا خیر یہ ایک الگ مسئلہ ہے بات ہو رہی تھی ٹریفک پولیس کی ۔جھنگ میں ٹریفک کا نظام عجیب ہے بائیں چلنے کی نجائے یہاں کی عوام دائیں طرف گاڑیاں دوڑانا فرض عین سمجھتے ہیں اور یہ نظارہ فوارہ چوک سے سیشن چوک کی طرف جانے والے روستے پر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے گول چکر والے چوراہوں پر تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کون کس طرف سے آرہا ہے اور کس طرف جا رہا ہے بلکہ قانون کے مطابق گاڑی چلانے والے ڈرائیور کو اس طرح گھورا جاتا ہے جیسے وہ کوئی عجیب مخلوق ہو۔ یہ مشاہدات فوارہ چوک اور ایوب چوک پر کیے جا سکتے ہیں وہاں پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکار ایک سائڈ پر کھٹرے نظر آتے ہیں یا کبھی کبھی جب کام کرنے کو دل کرے تو صرف موٹر سائیکل سواروں یا رکشہ ڈرائیوروں کو روک کاغذات چیک کرتے ہیں۔
Police Rescue
کسی غلط ڈرایئونگ کرنے والے کارسوار کو روکنا بھی گستاخی سمجھتے ہیں اور موٹر سائیکل سواروں میں سے ان کو روکتے ہیں جو چہرے سے شریف اور بھلا انسان محسوس ہو۔ اور ان حضرات کو غلطی بتائے بغیر جرمانے کرکے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہیں۔ موٹر کار والوں کا سامنا کرنے کی جرات اس لیے نہیں کرتے کہ جھنگ میں چلنے والی اکثر کاروں کی نمبر پلیٹ پر ایم این اے۔ایم پی اے درج ہوتا ہے کسی پر پولیس کی نمبر پلیٹ لگی ہوتی ہے اور اکثر موٹر سائیکلوں کا بھی یہی حال ہے یہاں تک کہ بغیر نمبروں والی گاڑیوں پر نمبر پلیٹ کی جگہ MNA۔MPA ۔ پولیس۔ ریسکیو۔ صدر انجمن تاجران وغیرہ کے علاوہ کچھ درج نہیں ہوتا اور اکثر ایسی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہیں لیکن قانون سب کے لیے برابر ہے کوئی اس سے بالاتر نہیں۔ قانون پر عمل درآمد کروانا انتظامیہ کا کام ہے ٹریفک پولیس اہلکار کو ایسی نمبر پلیٹ والی یا تحریروں والی گاڑیوں کی چیکنگ زیادہ کرنی چاہیے کہ جس ادارئے۔ MNA۔MPA وغیرہ کا انہوں نے نام تحریر کیا ہے کیا سوار کے پاس ان کا اتھارٹی لیٹر موجود ہے۔
گاڑی کے کاغذات وغیرہ موجود ہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ایسے لوگوں کو زیادہ جرمانہ کرنا چاہیے تاکہ قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ اس کے علاوہ ایک گذارش ٹریفک پو لیس اہلکاروں سے بھی ہے کہ جو شریف شہری قوانین کی پابندی کر رہے ہیں انہیں بلاوجہ جرمانے نہ کریں۔ اور یہ بہانہ پیش نہ کریں کہ ہمارے ذمہ ماہانہ پانچ سو یا ہزار لوگوں کو جرمانے کرنے کا کام ہمارے افسر نے دیا ہے ایک مرتبہ میں خود اپنے کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر دفتر جا رہا تھا کہ سیشن چوک پر تعینات ایک ٹریفک پولیس کے اہلکار نے رکنے کا اشارہ کیا۔ موٹر سائیکل رکتے ہی اہلکار پاس آیا اور گاڑی کا نمبر پٹرھ کر چلان رسید پر فوری نمبر درج کرنے کے بعد بھائی سے اس کا نام اور پتہ پوچھا اور وہ بھی فوری درج کر لیا میں نے اہلکار سے سوال کیا کہ جناب آپ کس وجہ سے جرمانہ کر رہے ہیں۔
Motorcycle
اس نے جواب دیا کہ آپ کے پاس گاڑی کے کاغذات ہیں میں نے جوب دیا کہا جی بالکل ہیں بھر اس نے پوچھا کہ ڈرائیور کے پاس لائسنس ہے میں عرض کی وہ بھی ہیں کاغذات اور لائسنس دیکھنے کے بعد کہنے لگا کہ آپ کی موٹر سائیکل سائڈ شیشہ بڑا ہوا ہے میں نے کہا کہ جناب گزرنے والی 99، فیصد موٹر سائیکلوں سائڈ شیشے ہی نہیں۔ انہیں تو آپ نہیں روک رہے میری ان با توں سے وہ حضرت جلال میں آگئے اور کچھ بدتمیزی کرنے لگے تب میں نے انہیں تعارف کرایا۔کہ بندہ نا چیز معمولی سا صحافی ہے تو اہلکار کے جلال میں یکلخت نرمی آگئی اور کہنے لگا کہ ہمیں افسران نے چالان کرنے کا ٹارگٹ دیا ہوتا ہے وہ پورا کرنا ہماری مجبوری ہے آپ جائیں اب چونکہ چلان رسید میں تحریر کر چکا ہوں تو چلان جمع کروانا مجبوری ہے۔
میں نے اس اہلکار سے درخواست کی کہ قانون کے رکھوالے بن کر بلاوجہ شہریوں کو تنگ کرنا اچھی بات نہیں یہ واقعہ درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کون سے افسران ہیں جو ٹارگٹ دیتے ہیں سوچئے کہ یہ اہلکار ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ہر آنے والے موٹر سائیکل سوار کو جائز نا جائز جرمانے کریں گے میرا وزیراعلی۔ وزیرقانون سے سوال ہے کہ کیا پنجاب حکومت اپنے خسارے پورے کرنے کے لیے جائز وناجائز جرمانے کرنے کا ٹارگٹ افسران کو دیتی ہے اور افسران اپنے ماتحت اہلکاروں کے ذمہ یہ کام لگا دیتے ہیں۔ تحریر : محمد شفقت اللہ خان