تحریر : پروفیسر رفعت مظہر کل موسم تھوڑا خوش گوار تھا۔ ہلکی ہلکی بوندوں سے گرمی کی حدت اور شدت میں کافی کمی آ گئی تھی۔ ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی تو ضرور خوش ہوئے ہوں گے کہ اب لوڈ شیڈنگ میں کمی آ جائے گی اور یہ جو میاں نواز شریف ”لٹھ” لے کر اُن کے پیچھے دوڑ رہے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے، اُس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ یہ سب تو ایک طرف لیکن ہماری ایک جاننے والی کل جب ہمارے گھر آئی تو اُس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ خیریت تو ہے گرمی کا زور تو ٹوٹ چکا لیکن تمہارا چہرہ کیوں سرخ ہو رہا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ میاں شہباز شریف یہ میٹرو شیٹرو جتنی مرضی بنا لے، جتنی دیر تک ٹریفک کا نظام درست نہیں ہوگا اور ٹریفک پولیس کا کوئی بندوبست نہیں ہوگا اربوں کھربوں لگانے کا کچھ فائدہ نہیں۔ میں نے کہا، ”تمہاری بات بجا لیکن ہوا کیا”؟ کہنے لگی کہ ٹریفک پولیس نے چالان کر دیا ہے۔
میں نے اپنے لبوں پر پھسلنے والی بے ساختہ مسکراہٹ کا گلا گھونٹتے ہوئے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی طاری کر کے پوچھا کہ کیوں؟ تو کہنے لگی۔ ”سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی”۔ میں نے پوچھا کہ کیا گاڑی میں سیٹ بیلٹ نہیں تھی، یا خراب تھی؟ اُس نے جواب دیا کہ گاڑی نئی ہے بھلا سیٹ بیلٹ کیوں خراب ہونے لگی۔ میں نے کہا تو پھر غلطی تو آپ کی ہوئی ناں، اس میں ٹریفک پولیس کا کیا قصور؟ وہ کہنے لگی بات غلطی ولتی کی نہیں اصل ماجرہ یہ ہے کہ خادم اعلیٰ کے پاس جب بجٹ کے پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو پھر وہ ایسی ”حرکتوں” پر اُتر آتے ہیں اور ٹریفک پولیس کو چالانوں کا ٹارگٹ دے دیتے ہیں۔ آج کل سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ کا بڑا شورو غوغا ہے۔
جب چار پیسے اکٹھے ہو جائیں گے تو پھر تو کون میں کون۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں اچانک ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں کی شامت آ گئی تھی۔ شنید ہے کہ پرویز الٰہی کے کسی دوست نے ہیلمٹوں کی پوری لاٹ خریدی تھی جسے فروخت کرنا مقصود تھا۔ جب ہیلمٹ بک گئے تو پھر کسی نے پوچھا تک نہیں کہ ہیلمٹ کیوں نہیں پہنا۔ یہ بجا کہ قانون کی پابندی اور پاسداری ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں قانون نامی چڑیا ہے کہاں؟ ان کا قانون اُس وقت کہاں جا سوتا ہے جب کسی ”نام نہاد” وی وی آئی پی کے گزرنے کے لیے گھنٹوں ٹریفک بند کر دی جاتی ہے اور ایسا تماشہ ہر روز ہوتا ہے۔ آپ بھی جانتی ہیں کہ ٹریفک کی اس بندش سے کئی حادثے بھی جنم لے چکے ہیں لیکن مجال ہے جو اکڑتی گردنوں والے فرعونوں کے ماتھوں پر شکن تک آئی ہو۔ قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ وی وی آئی پی کے گزرنے کے لیے ٹریفک بند کر دی جائے گی؟ حیرت ہے کہ یوں تو ہماری اعلیٰ عدلیہ بات، بے تاب ازخود نوٹس لیتی رہتی ہے لیکن اس معاملے میں وہ بھی خاموش ہے۔
رہی ٹریفک پولیس کی بات تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ٹریفک قوانین پر بھرپور عمل درآمد ہو لیکن یہ کیا کہ سو گاڑیوں میں سے ایک کو کھڑا کر کے چالان کاٹ دیا جائے کہ سیٹ بیلٹ نہیں باندھی۔ میں پورے وثوق سے کہتی ہوں کہ لاہور کی سڑکوں پر آج بھی 99 فی صد لوگ سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے اگر ٹریفک پولیس دیانت داری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے تو لوگوں میں بھی شعور اجاگر ہو لیکن انہیں تو ”گپیں ہانکنے” سے ہی فرصت نہیں۔ کارکردگی کے لحاظ سے شاید لاہور کی ٹریفک پولیس کو دُنیا کی بدترین پولیس قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک ایک اشارے پر چار، چار پانچ، پانچ پولیس والے کھڑے گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں اور ٹریفک بے ہنگم۔ موٹر سائیکل سوار پوری سڑک پر پھیل کر چلتے ہیں، لیکن اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، حالانکہ موٹر سائیکلوں کے لیے انتہائی بائیں ”لین” مقرر ہے لیکن کبھی آپ نے دیکھا کہ ٹریفک پولیس کے کسی شخص نے ایسے موٹرسائیکل سواروں کا چالان کیا ہو؟ اشاروں پر گاڑیاں پیدل گزرنے والوں کے مخصوص راستے سے بھی آگے کھڑی ہوتی ہیں لیکن ٹریفک پولیس کی بلا سے۔ ٹریفک کا اصول یہ ہے کہ اشارے پر بائیں طرف مُڑنے والوں کے لیے راستہ کھلا ہوتا ہے جبکہ دائیں اور سیدھا جانے والوں کے لیے بند۔ لیکن لوگ ہمیشہ بائیں طرف مڑنے کا راستہ بھی بلاک کر کے کھڑے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے جو پولیس کے کانوں پر جوں بھی رینگتی ہو اس کا مشاہدہ آپ کسی بھی اشارے پر کر سکتی ہیں۔
اپنی ”لین” میں چلنے کا تو سرے سے رواج ہی نہیں۔ مڑنا دائیں ہوتا ہے اور کھڑے انتہائی بائیں لین میں ہوتے ہیں۔ اگر ٹریفک سارجنٹ وغیرہ وہاں موجود نہ ہو تو پھر بھی صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے لیکن تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ ایک نہیں چار چار لوگ کھڑے، ایسے ڈرائیوروں کو صرف ”بِٹر بِٹر” دیکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ جس بیچارے کا چالان ہوتا ہے وہ ”چالان چٹ” کو غور سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے کہ نیشنل بنک کی کس شاخ میں چالان کے پیسے جمع کروانے ہیں لیکن مجال ہے جو کچھ بھی پلے پڑتا ہو۔ ماشاء اللہ ان کی لکھائی ”لکھے مُوسا، پڑھے خود آ” (جو بال جیسا باریک لکھتا ہے ، وہ خود ہی آ کر پڑھ سکتا ہے) والا معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایسی نکمی اور نااہل ٹریفک پولیس کا جواز ہی کیا ہے؟ اسے فارغ کر کے گھر کیوں نہیں بھیجا جاتا؟ عوام کے خون پسینے کی کمائی ان پر کیوں ضائع کی جا رہی ہے؟ سچی بات ہے کہ اُس کی باتوں سے ہمیں اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی۔ یہ شاید اس لیے بھی تھا کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور اُس کی کڑوی کسیلی باتوں میں سچائی جھلکتی تھی۔ ہم نے بھی یہی مشاہدہ کیا ہے کہ لاہور کی ٹریفک پولیس ٹریفک کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
اگر ٹریفک پولیس بھرپور کارکردگی دکھاتی تو پھر لاہور میں جگہ جگہ ٹریفک جام نہ ہوتی۔ خادم اعلیٰ لاہور میں سڑکوں اور پلوں کا جتنا جال بچھا چکے ہیں، اُس کے بعد تو ٹریفک بلاک ہونے کا سرے سے کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ ٹریفک پولیس کی نااہلی اور عوام میں ٹریفک رولز کے شعور کی کمی ہی اُس کی واحد وجہ ہے۔ ہم تو پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر خادمِ اعلیٰ سڑکوں اور پلوں پر اربوں کھربوں صرف کرنے کی بجائے صرف اتنا کرتے کہ موٹر سائیکلوں، رکشوں اور سائیکل رکشوں کے لیے الگ ”لین” بنا دیتے تو نہ ٹریفک بلاک ہوتی نہ حادثات ہوتے لیکن نقار خانے میں توتی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔”