تحریر: شمائلہ زاہد، کراچی ٹریفک کسی بھی ملک کی ایک اہم سرگرمی ہے،کسی بھی شخص کو اپنے دفتر کام یا عزیز رشتے داروں سے ملنے جانے کے لیے کسی نہ کسی طرح بس ،گاڑی، موٹر سائیکل یا رکشہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔ سڑکوں پر دوڑتی ان گاڑیوں کے نظام کو ہی ٹریفک کہا جاتا ہے۔کراچی جیسے گنجان آباد شہر جس کی آبادی لگ بھگ دو کڑوڑ تو ہو ہی گئی ہوگی۔کیوں کے اس اس ملک میں آخری مردم شماری کب ہوئی تھی ماضی قریب میں نظر دوڑانے سے یاد نہیں آتی۔کراچی میں آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ماہ ٹریفک پولیس نے اپنے نظام کو بہتر کرنے کے لیے چند اصول متعارف کروائے ہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس ڈاکٹرعامرشیخ نے پریس سے بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اصلاحات مرحلہ وار ہوں گی۔ پہلے مرحلے میں ون وے کی خلاف ورزی کرنے والوں، سگنل توڑنے والی پبلک ٹرانسپورٹ بس اور ویگنیں شامل ہوں گی۔ کوئی بھی بس یا ویگن والا ضرورت سے زیادہ مسافر بسوں یا ویگنوں میں یا ان کی چھتوں پر نہیں بیٹھا سکیں گے۔ اب یہ قسمت غریب کی جو پبلک ٹرنسپورٹ کی کمی کے باعث گھنٹوں انتظار کے بعد بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ اب وہ بےچارے کہاں جائیں۔ ویسے تو اس پر عمل کب ہوگا یہ دیکھنے کی بات ہے۔ون وے کی پاسداری کون کرتا ہے اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ نوجوان یو ٹرن نہ ہونے کے باعث موٹرسائیکل اٹھا کر فٹ پاتھ کراس کر کے دوسری طرف لے جاتے ہیں۔
Punishment
قابل غور بات یہ ہے اگر کسی نے اوپر بیان کردہ قانون کسی نے توڑا تو اسے دو سال کی جیل ہوگئ۔اب اگر قانون توڑنے والا شخص ہمارے معتبر ٹریفک پو لیس والے صاحب کو سائڈ پر لے جاکر چائے پانی کے نام پر 100 روپے اور کبھی کبھی 50 روپے دیتا ہے تو اس پولیس والے کی فرض شناسی کہیں پسے پشت چلی جاتی ہے، بس انہیں تو اپنے پیسے سے مطلب ہے۔جب اس طرح کے لوگ ہوں گے تو پھر جتنے مرضی قانون بنا لیں وہ توڑے ہی جائیں گے پھر مسئلہ ہے ہیلمٹ استعمال نہ کرنا ہے۔ اس ہیلمٹ کی بھی بڑی دردناک کہانی ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر نا جانے کتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ جن میں خواتین سمیت بچے اور مرد سب ہی حادثات کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ کچھ افراد جو موقع پر چل بستے ہیں میں متعدد وہ ہیں جن کو سر پر چھوٹ لگتی ہے۔ اس لیے ہیلمٹ اس لحاظ سے بہت ضروری ہے۔ پھر خواتین پر ہیلمٹ بھی ضروری ہے۔ حادثات کا شکار ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اگروہ خواتین ہیلمٹ پہن لیں تو ان کی جان بچ سکتی ہے۔
ہیلمٹ ضروری تو ہے تاہم مہنگا بھی ہے۔ یہ الفاظ ایک غریب سیدھے سادھے آدمی کے ہوسکتے ہیں۔ ایک غریب آدمی کے لیے ہیلمٹ خریدنا بھی اچھا خاصا مشکل کام ہے۔ موٹرسائیکل کو غریب کی سواری کہا جاتا ہے۔ غریب جس کی دہیاڑی 400 یا 500 ہے وہ کس طرح پندہ سو یا دو ہزار کا ہیلمٹ کہاں سے لائے گا۔ کچھ روز پہلے حکومت کی جانب سے ہیلمٹ تقسیم کیے جارہے تھے۔ غریب تو غریب امیر بھی ہیلمٹ سے بھر گاڑی پر ٹوٹ پڑے۔ پھر ٹریفک پولیس والے ہیلمٹ سے بھری گاڑی لیکر فرار ہی ہوگئے۔
Poor
حادثات سے بچنے کے لیے آپ جتنے مرضی قانون بنالیں حادثات تب تک کم نہیں ہوں گے جب تک مجرم کو سزا نہ دی جائے اور چائے پانی کے نام پر دی جانے والی رشوت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھنک نہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر فرد واحد کو اپنے طور پر خود اپنی اپنے بچوں کی زندگی کی خاطرسوچ سمجھ کر ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرنی چاہے۔ حکومت سے بھی عاجزانہ التجا ہے کہ وہ قوم کے ان رکھوالوں کی تنخواہوں اور دیگر مرعات بڑھا دیں تاکہ وہ چائے پانی کے نام پر 100 یا 200 میں اپنے فرائض منصبی سے دھوکا اور اپنے ایمان کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔
تحریر: شمائلہ زاہد، کراچی Writer Club (Group) Email: urdu.article@gmail.com Mobile No: 03136286827