تحریر : شیخ خالد زاہد موت برحق ہے، موت کا منکر بھی موت سے نہیں بچ سکتا۔ لیکن ایک طبعی موت ہوتی ہے اور ایک خودکشی ۔ خودکشی کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے کیوں کہ زندگی اللہ کی جانب سے دی گئی ایک نعمت ہے اور خودکشی کفران نعمت کے مترادف ہے ۔ حالات و واقعات انسان کو کیا کچھ کرنے پر مجبور کردیتے ہیں ان ہی میں سے ایک خود کشی ہوتی ہے۔ جسکا ایک سبب معاشرے کی بے ثباتی کے منہ پر طماچہ ہوتا ہے مگر ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں یہ بے حس بھی ہوتا چلا جارہا ہے۔
روز گار کی تلاش ہو یا پر روز گار پر پہنچنا دونوں صورتوں میں آپکو کہیں نا کہیں جانا پڑے اور جانے کیلئے سفر درکار ہوتا ہے جسکے لئے آپ کوذرائع آمد و رفت کی ضرورت پڑے گی اور آپ سڑک پر پہنچ جائینگے اور سڑک پر پہنچتے ہی گاڑیوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ آپکی آنکھوں کے سامنے سے گزرنا شروع ہوجائے گا اور گزرتا ہی چلا جائے گایہاں تک کہ آپ اپنی مطلوبہ سواری میں سوار ہوکر اس ٹریفک کے بہنے والے سمندر کا حصہ نا بن جائیں۔ آج اس تیز رفتاری کے دور میں ذرائع آمد و رفت کے بغیر زندگی ادھوری معلوم ہوتی ہے آج گاڑی تعیش سے نکل کر ضرورت کے خانے میں آچکی ہے ۔گاڑی جیسی سہولت کوعام آدمی تک رسائی دلانے میں مختلف مالیاتی اداروں نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں۔ جس کے باعث ناصرف پاکستان بلکہ دینا میں گاڑیایوں کی بہتات ہوگئی ہے ۔ جہاں کبھی چند گاڑیاں ہوا کرتی تھی اب ایک سمندر کے ریلے سا سماء ہوتا ہے ۔ آپ نے بارہا یہ نظارہ سڑک پار کرنے والے پل پر کھڑے ہوکر یا پھر گزرتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگااور شائد کبھی آپکو اتنی گاڑیاں دیکھ کر قے بھی محسوس ہوئی ہوگی۔ٹریفک کا مسلۂ ساری دنیا کو ہی درپیش ہے مگر ہم یہاں اپنے ملک میں اور خصوصی طور پر کراچی شہر میں ٹریفک کی دہشت گردی کا تذکرہ اور سدباب جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
دینا نے دہشت گردی کی لگائی ہوئی آگ میں پاکستان کو دھکیلا اور خود بھی اس آگ سے محفوظ نہیں رہے سکے شائد دنیا کے ٹھیکے داروں کا خیال تھا کہ پاکستان کو اس دہشت گردی کی آگ میں جلا کر خاک کردینگے پاکستان تو اللہ کے فضل سے دہشت گردی اور دہشت گردوں دونوں سے ہی بہت اچھی طرح سے نمٹ رہا ہے، مگر وہ ممالک جن کا یہ خواب تھا وہ خود بربادیوں کی داستانیں لکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی جیسی بلا کو قابو کرلیا ہے تو یقیناًہمارے لئے اس سے بڑا کوئی مسلۂ ہو ہی نہیں سکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے سیاست دان اور علمائے کرام ایک آواز میں دہشت گردوں کو للکاریں اور ایسا ہوا ، جب للکار میں ایکتا ہو تو پھر سامنے آنے کی جرات کوئی نہیں کرتا۔ الحمدوللہ آج دنیاکے مقابلے میں پاکستان کو محفوظ ترین ممالک میں گنا جاسکتا ہے ۔ جسکا ایک منہ بولتا ثبوت بین الاقوامی کرکٹ کی پاکستان میں بحالی کی صورت میں موجود ہے ۔
دہشت گردی کی طرح ہمیں اب ٹریفک کے مسلئے کو بھی حل کرنے کیلئے ایک ہونا پڑے گا اور کون کہاں کیا حصہ ڈال سکتا ہے یہ ایک ایک پاکستانی پر واضح کرنا پڑے گا۔ سائیکل چلانے سے بڑی سے بڑی گاڑی چلانے والے کو سب سے پہلے تو زندگی کی اہمیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے ۔
ٹریفک کے مسلئے کے حل کیلئے مختلف ادارے جہاں ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا رکرتے ہیں وہیں اس مسلئے سے بھی نمٹنے کیلئے اپنی اہمیت واضح کرسکتے ہیں جیسے اداروں میں گاڑیاں ہوتی ہیں جن میں سے کچھ وہاں کام کرنے والوں کی ہوتی ہیں اور کچھ ادارے کی ، ان تمام گاڑیوں کو چلانے والوں کو ہفتہ میں تقریباً ایک بار صبر سے اور اپنی اپنی لین میں گاڑی چلانے کی ترغیب دی جائے تو تقریباً مسلئے پر قابو پانے میں پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو ایک اخلاقی حلف لیں کہ وہ گاڑی چلاتے ہوئے قانون نہیں توڑینگے اور اخلاقیات کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑینگے۔ اسی طرح یہ گاڑی چلانے والے اپنے اپنے گھروں میں بھی اس بات کو عام کرنے کی کوشش کریں کہ غیرضروری گاڑی کا استعمال نہیں کیا جائے گااور جب کبھی ضرورت کے تحت استعمال کرنا بھی پڑے گا تو قانون اور اخلاقیات کا سبق یاد رکھا جائے گا۔ جہاں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے والے ادارے اس مہم کا آغاز کرینگے وہیں ملک کے مستقبل کے معماروں کی تعلیم اور تربیت کرنے والے تمام چھوٹے اور بڑے تعلیمی ادارے بھی اس مہم کا بھرپور حصہ بنیں گے۔ تعلیمی اداروں میں بھی ہفتہ وار ایک یا آدھا گھنٹہ ٹریفک کے قوانین سے آگہی کیلئے عملی طور پر مختص کیا جائے تاکہ یہ طالب علم عملی زندگی میں ایک منظم اور پر امن معاشرے کا باعث بنیں۔
گاڑیاں بنانے والے ادارے ، گاڑیاں بنا نبا کراپنے کاروبار کو وسیع تر کئے جا رہے ہیں کیا ان پر معاشرے میں بڑھتی ہوئی ٹریفک سے پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال پر قابو پانے میں مدد فراہم کرنا نہیں ہے۔ ٹریفک کے نظام میں بہتری کیلئے یہ ادارے بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ، اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ بہت پرانی گاڑیاں بیچ سڑک میں خراب ہونے کے باعث بند ہوکر رک جاتی ہیں جس کی وجہ سے بہت دور تک ٹریفک کی روانی میں بری طرح سے خلل پڑنا شروع ہوجاتا ہے ۔حکومت اور گاڑی بنانے والے ادارے مل کر کوئی تبدیلی کی اسکیم لے کر آئیں جس کے تحت یہ پرانی گاڑیاں نئی یا قدرے نئی گاڑیوں سے تبدیل کی جاسکیں اور بہت پرانی گاڑیوں سے پھیلنے والی شور اور فضائی آلودگی سے محفوظ بنایا جاسکے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں پرانی گاڑیوں پر ایک حد متعین ہے اس سے زیادہ پرانی گاڑی استعمال ہی نہیں کی جاسکتی۔ مگر پاکستان میں تو آپکوسڑکوں پر رواں دواں ۴۰ سال سے بھی پرانی گاڑیاں نظر آجائینگی۔
ٹریفک کے قوانین کی بالادستی کو یقینی بنانے سے بھی ٹریفک کے مسائل پر کسی حد قابو پایا جاسکتا ہے ، کراچی جیسے شہر میں گاڑی چلانے والا تیسرا نہیں تو ہر چوتھا شخص بغیر لائیسنس کے گاڑی چلا رہا ہے اور گاڑیا ں اوپن لیٹر پر چلائی جا رہی ہے ہیں۔ رکشے اور موٹرسائیکل چلانے والوں میں ستر سے اسی فیصد ایسے افراد کی ہے جن کے پاس نا تو لائیسنس ہے اور نا ہی کاغذات مگر بہت مزے سے گھومتے پھر رہے ہیں۔ ان تمام معاملات پر ٹریفک پولیس کے ذمہ داران کو کوئی جامع حکمت عملی واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کراچی جیسا وسیع و عریض شہر جب ٹریفک کی وجہ سے گھٹن ذدہ محسوس ہوتا ہے تو ہمارے دوسرے شہر جوکہ کراچی کے مقابلے میں کافی گنجان ہیں بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجہ سے کیا صورتحال پیش کرتے ہونگے۔
ایک طرف ہم کراچی والے اپنی زندگی کے صبح و شام گھنٹوں ٹریفک میں پھنس کر سڑکوں پر گزار رہے ہیں تو دوسری طرف وی آئی پی موومنٹ اس گھٹن ذد ہ گھنٹوں میں اضافے کا باعث بنتی رہتی ہیں ۔ یہ تو طے ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو تو عوام سوائے انتخابات کے دنوں میں ہی یاد آتی ہے اگر ہم اس ٹریفک کی دہشت گردی (جسکا ہم سب بھی کسی نا کسی حصہ ہیں)پر پانے کیلئے ایک نا ہوئے تو ہماری رہی سہی زندگیاں یونہی سڑکوں پر گزر جائینگی۔ ایک طرف تو طبی سہولیات نا ہونے کی وجہ سے بچے سڑکوں پر پیدا ہورہے ہیں اور لوگ انتظار کی قطاروں میں مر رہے ہیں تو دوسری طرف لوگ سڑکوں پر مرنا شروع نا ہوجائیں یہ بڑھتا ہوا ٹریفک مسلۂ نہیں ہے مسلۂ ہے بندر کے ہاتھ میں ادرک، یہ ادرک اگر بندر کے ہاتھ میں یونہی رہی تو ہم سب سڑکوں پر سے تو نا گزر پائیں مگر سڑک پر ضرور گزر جائینگے۔ ہم سے جو ممکن ہوسکے اس ٹریفک کے مسلئے کو حل کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور انسانیت کو فوت ہونے سے بچانے میں حصہ ڈالیں۔