سانحہ آرمی پبلک اسکول اور انتظار کرتی مائیں

Tragedy Army Public Schools

Tragedy Army Public Schools

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

ان شہیدوں کے کی مائوں کے چہروں پر خوشی کی کوئی رمق نہیں تھی نم آنکھیں، لرزتے ہونٹ،کھوئی کھوئی سی یہ مائیں ان شہیدوں کی مائیں تھیں جو آرمی پبلک اسکول میں انتہائی بے دردی سے شہید کیے گئے تھے اللہ سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے چار سال گذرنے کے باوجود اب بھی اس سانحے کو سوچ کر دل کانپ جاتا ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے یہ مناظر ٹی وی پر دیکھے یہ وہ مائیں جنھوں نے یہ دکھ جھیلا ہے ان کا انتظار کیا ہے جو کبھی نہیں آئیں گے لیکن ماں کا انتظار کبھی ختم نہیں ہوتا وہ یا تو بچھڑے بچے کا انتظار کرتی ہے یا اس دن کا انتظار کرتی ہے جب مرنے کے بعد اس سے جا ملے گی ،ہماری امی ایک واقعہ سنایا کرتی تھیں جو بالکل سچا تھا ایک سنیارن کا بیٹا گم ہو گیا وہ مصلہ بچھا کر بیٹھ گئی اور قسم کھا لی اے اللہ جب تک میرا بیٹا واپس نہیں ملے گا اس مصلے سے نہیں اٹھوں گی جانے کتنے دن یا مہینے وہ بیٹھی رہی اس کو بیٹھے بیٹھے زخم ہو گئے پھر ان زخموں میں کیڑے پڑ گئے لیکن وہ مصلے سے تب اٹھی جس دن اس کا بیٹا واپس ملا تب ہم اس کو صرف گپ سمجھا کرتے نا سمجھی کا دور تھا تب ایسی سہولتیں بھی نہ تھیں اب تو خیر میڈیا بھی ان کوششوں کا حصہ بن جاتا ہے جس طرح اے آر وائی نیوز کی سرعام کی ٹیم نے شہیدوں کی مائوں کو بلا کر ان یادوں کو تازہ کیا۔

وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے آنسو تھمتے تھمتے تھم ہی جاتے ہیں مگر دل میں چھپی ٹیسیں ختم نہیں ہوتیں ،آجکل کے بچوں کو دیکھ کر دل پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا بنے گا ان کا ؟جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ ذہنی معذوری بھی بڑھتی جا رہی ہے جب ماں باپ ہی ڈیپریشن میں ہونگے تو بچے پیدائشی بیماریوں کا شکار ہونگے کوئی گھر ایسا نہیں جہاں کوئی ذہنی یا جسمانی معذور بچہ نہ پایا جاتاہو حتی کہ ان امیروں کے گھروں میں بھی جن کے پاس وافر خوراک پائی جاتی ہے کہنے کو ہم نے بہت ترقی کر لی ہے طرح طرح کے کھانے اور ڈشیں ایجاد ہو گئی ہیں لیکن ناقص خوراک اور ماحول دشمن انوائرمنٹ ،ہم اپنی نسلوں کے لیے کیا کر رہے ہیں یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے بے شک یہ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آنے والی روح اپنا رزق ساتھ لے کر آتی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے اس ننھی روح کو لانے کے زمہ دار اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کر رہے ہیں یا نہیں ،ٹیڑھے میڑھے،لولے لنگڑے ،بھوکے ننگے ،آدھے دماغ والے ،جاہل ،تخریب کار ،پائوں سے ننگے،محبت سے محروم ،تعلیم سے نابلد،تربیت سے عاری یہ بچے ہمارے لیے ہی نہیں دوسروں کے لیے بھی عذاب ہیں اس دھرتی کا بوجھ ہیں صرف قابل رحم کہنے سے کچھ نہیں ہوتا صرف دکھاوے کی ہمدردیاں ان کا علاج نہیں ہیں کبھی ہم نے سوچا کہ ایسے بچے پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کی کوئی ایک مثال بتا دیں جب ایسے بچے پیدا ہوتے ہوں ؟

جن کے ذہن پورے نہ ہوں جو پیدائشی شوگر یا کینسر کے مریض ہوں جس دور میں کھانے کو صرف جو کھجور اور دودھ ہوتا تھا ،جب شہد اور زیتون سے علاج کیا جاتا تھا اب ہر بیماری کے درجنوں ٹیسٹ ہوتے ہیں پھر بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی ان سب کی ایک وجہ ہے ہم نے شہر تو بڑھا لیے وسائل نہیں بڑھائے ،درخت تو کاٹ دیے چھائوں فراہم نہیں کی ،فیکٹریاں بنا لیں انکے زہریلے دھویں اور فضلے سے بچنے کا کوئی انتظام نہ کیا ،زرعی زمینوں کو ہائوسنگ سوسائٹیوں میں بدل ڈالا مگر خوراک بڑھانے کا کوئی انتظام نہ کیا ظاہر ہے آبادی تو بڑھ گئی انسان مٹی کھا کر نہیں جیتا ،ایک وقت تھا گھروں میں دودھ مکھن ،دیسی مرغیاں انڈے اناج سبزیاں بکریاں تک موجود ہوتی تھیں درجنوں بچے درجنوں ملازم اور مالکان ایک جیسی خوراک ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتے بلکہ کوئی مانگنے والا بھی آجاتا تو اس کو فورا کھانا بجھوایا جاتا (اب سب سے کھانا چھپایا جاتا ہے )ایک نیٹ فرینڈ نے تصویر بھیجی ایک ریستوران میں ایک فیملی کھانا کھا رہی ہے جبکہ دس بارا سال کی ملازمہ بچی خاموش بیٹھی دیکھ رہی ہے ان صاحب کا کہنا تھا میں ساتھوالی ٹیبل پر تھا یہ سب دیکھ کر بہت اپ سیٹ ہوں کہ انہوں نے بچا ہوا کھانا بھی پیک کروا لیا مگر اس کو نہیں دیا میں نے کہا انہوں نے اسے گھر جا کے دیا ہوگا بہت سے لوگ نوکروں کو ساتھ بٹھا کے کھلانا کسر شان سمجھتے ہیں یہ اب رواج پڑ گئے ہیں پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا گھروں میں ڈھیروں کھانا بنتا اور آس پاسکے گھروں میں ناشتے تک بھیجے جاتے کوئی اکیلا بیٹھ کر نہیں کھاتا تھا اس لیے برکتیں بھی تھیں لوگ دعا دیتے پھلو پھولو آباد رہو اب کہتے ہیں گھر میں کھانے کو نہیں تو بچے کیوں پیدا کرتے ہو ؟

گھر کا ہر جی کماتا ہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی ،پیٹ خالی ہوتا ہے کیبل لگی ہوتی ہے پیٹ خالی ہوتا ہے موبائل میں بیلنس بھرا ہوتا ہے ،گھر میں چولہا نہیں جلتا میاں آتے ہوئے تندور سے سوکھی سڑی روٹیاں اور ناقص گھی مصالحوں سے پکی سبزی لے کر گھر میں داخل ہوتا ہے کہیں جاتے ہی جوتے نہ پڑ جائیں ایک لحاظ سے تو عمران خان نے اچھا مشورہ دیا ہے گھروں میں انڈے مرغیاں بھیسیں کٹے فراہم ہوں تو لو گ کاہے کو بھوکے مریں اسی لیے تو کہتے تھے جس کے گھر دانے اس کے کملے وی سیانے ،صرف گندم ہو اور دودھ دینے والا ایک جانور دیہات میں لوگ کبھی بھوکے نہیں سوتے تھے اب گھر میں دودھ دینے والا جانور ہو بھی تو اسے بیچ کر ڈبے والا دودھ لے آتے ہیں اور یہی دیہاتی اب زیادہ تر بیمار ہو کر ہسپتالوں میں بھرے ہوتے ہیں ،درخت لگانے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے انسان کی بنیادی ضرورت کیا ہے؟خوراک ،صاف پانی اور صاف ہوا اگر یہ آپ نہیں دے سکتے تو پھر آپ کو بچے پیدا کرنے کا بھی کوئی حق نہیں یہ معذور بچے کسی کو کیا دیں گیایک وقت آتا ہے جب ان کو ان کے اپنے بھی بوجھ اور خجالت سمجھنے لگتے ہیں۔

جب فرق اتنا بڑھ جائے کہ کچھ لوگ تو کھانا کوڑے میں ڈالت ہوں اور کچھ کوڑے سے کھانا اٹھا کر کھاتے ہوں تو اس کو ترقی نہیں تنزلی کہتے ہیں ،جب آپ گھروں میں گارڈ رکھیں ،کتے رکھیں ،کیمرے لگوائیں پھر بھی محفوظ نہ ہوں تو ایسی دولت کا کیا فائدہ ؟ اس سے بہتر ہے آپ وہ دولت دوسروں پر خرچ کریں تاکہ وہی لوگ آپکی رکھوالی کریں جن سے آپ ڈرتے ہیں شیشے کے یا سونے کے محل بناکر خود کو غیر محفوظ کرنے کا کیا فائدہ ؟ پانی آپکے پاس نہیں ہے بلوچستان تیزی سے قحط سالی کی طرف بڑھ رہا ہے ،سندھ میں سینکڑوں بچے خوراک کی کمی سے مر چکے ہیں شہلا رضا فرما رہی تھیں جلدی شادی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے محترمہ کو کوئی بتائے جو کمی بچے کو ماں کے پیٹ سے ملتی ہے وہ تمام عمر پوری نہیں ہوتی تو جو طاقت نوعمری کی جوانی میں ہوتی ہے وہ ڈھلتی عمر میں نہیں جب اس جوانی میں ان کے پیدا ہونے والے بچے مر جاتے ہیں تو ڈھلتی عمر میں کیسے بچیں گے مسلہ سارا یہی ہے عوام کی بھلائی کا کوئی کام ہوتا نہیں پہلے دس سال یہ جیبیں بھرتے رہے اب انہوں نے لوگوں کے کان بھرنا شروع کر دیے ہیں اسملی کا کوئی سیشن ایسا نہیں جس میں یہ اپنا رولا ڈال کے نہ کھڑے ہوں گھٹیا باتوں میں وقت ضائع کیا جا رہا ہے کوئی قانون نہیں بننے دیتے اسی دبائو میں آکر کہ چلو کسی طرح قانون سازی کا عمل آگے بڑھے شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئر مین بنانا پڑا اب یو ترن بہت پیارا لگ رہا ہے سارا وقت اسمبلی اور ٹاک شوز میں ایک ہی رولا ہمیں ناشتہ صحیح نہیں ملا ،واش روم گندہ ہے ارے بھئی تم ان کو اپنے دس سالہ دور میں ٹھیک کیوں نہ کرا سکے کیا وہ کیڑے مکوڑے تھے جن کو جیلوں میں ڈالتے رہے ہو خدا کا خوف کرو ایک ہسپتال ہی ایسا بنوا لیتے جہاں تمھارا علاج ہو جاتا ،کوئی ڈیم بنا لیتے جو ملک خشک سالی سے بچ جاتا ،ٹوٹے پھوٹے اسکولوں کی مرمت کرا لیتے سارے گرین پارک تباہ کر کے کیا بنائے؟

پلازے،پلازوں میں مشینی جھولے ،پانچ سو کا جوڑا پانچ ہزار میں بیس روپے کا برگر چا سو روپے میں ،تین سو کا پزا دو ہزار میں یہ ہے ان پلازوں کی زندگی جس میں صرف شور ہی شور ہے بچوں کی ہائپر ایکٹیویٹیزماں باپ کا جینا حرام کر دیتی ہیں کبھی بھاگ کر اس مشین پر چڑھتے ہیں کبھی اس پر کہ کسی طرح بچوں سے یہ طعنة نہ سننا پڑے آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا ،بچے بچے ہی نہیں رہے خرانٹ سوال ،شیطانی خواہشیں ،طنزیہ گفتگو ،بیار سوچیں ،جیلسی بھری یہ کیا زندگی ہے ان کی ؟کدھر لگا دیا ہے قوم کو اس پر دن رات واویلا کہ ہم سے انتقام لیا جا رہا ہے یہ نہیں کہتے یہ مکافات عمل ہے ایک شخص جس کی سترہ سال بعد قبضہ مافیا سے زمین واگذار ہوئی ہے خوشی سے رو پڑا کہ ایم این اے ،ایم پی ایز سے زمین کون چھڑا سکتا تھا میں تومایوس تھا اب میرے حق میں فیصلہ آیا ہے تو عمران خان کی پالیسی پر عمل کروں گا مرغیاں پالوں گا درخت لگائوں گا بھینسیں اور کٹے پالوں گا اس زمین میں سبزیاں اگائوں گا کتنے لوگ اس ْبضہ مافیا کے ہاتھوں کنگال ہو چکے تھے ان بد بختوں نے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کر کے امیر اور غریب کے درمیان نفرت کا وہ جہنم دہکا دیا ہے جو اتنی جانیں لے کر بھی سرد نہیں ہو سکا بھلا آرمی پبلک اسکول کے بچوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا اس کی وجہ یہی نفرت ہی تھی جو انہوں نے قوم کے درمیان پھیلائی ہے اللہ ان کا بیڑہ غرق کرے !

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی