تحریر: ملک نذیر اعوان۔ خوشاب قارئین ہفتہ کی شام کو در گاہ شاہ نورانی میں جو خود کش دھماکہ ہوا اس کی جتنی مزمت کی جائے اتنی کم ہے یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شام کو قوالی اور دھمال ڈالا جا رہا تھا اور ابھی تک اس واقعہ میں٦٦ افراد جان بحق ہوئے ہیں اور ایک سو دس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔جب یہ واقعہ رونما ہوا میں اس وقت ٹیوی دیکھ رہا تھا ہر طرف افرا تفری کاعالم تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا قیامت برپا ہو گئی ہے انسانی اعضاء دور تک پھیلے ہوئے تھے۔چونکہ یہ دربار پہاڑ کے اندر تھا دشوار پہاڑی علاقے کے باعث امدا ی سرگرمیوں میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔یہاں کوئی خاص روڈ بھی نہ تھا اور ہیلی پیڈ کی کی سہولت بھی نہ تھی اور اس سے بڑھ کر جو شرم کی بات ہے کہ یہاں کے سول ہسپتال میںصرف تیس سٹیچر تھے اور دیکھا جائے تو کوئٹہ کے اندر یہ تیسرا حملہ ہے۔مگر یہاں کے انتظامیہ کی حالت بہت خستہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے مین ذمہ داری کوئٹہ کے چیف منسٹر کی ہے کیونکہ صوبے کے اندر چیف منسٹر کا اہم رول ہوتا ہے اداروں اور انتظامیہ کو مضبوط کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ان بدبختوں نے بے گناہ معصوم جانوں کو نشانہ بنایا۔ ان کو انصاف کے کٹہرے میںکھڑا کرنا چاہیے اور ان کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیئے ۔قارئین یہ بہت افسوس ناک واقعہ ہے اس سے ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہے اس کی جتنی مزمت کی جائے اتنی کم ہے اور ایسی جو طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ اسلام کے نام پر دھبہ ہیں اور یہ لوگ اسلام سے خوارج ہیں یہ لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں یہ ایک بہت عظیم سانحہ گزرا ہے اس سے ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہے اور درجنوں گھروں میں ماتم جاری ہے اور پورا ملک سوگ کی کیفیت میں ہے کیونکہ ہم لوگ سوگ منانے کے عادی ہیں تین دن کے سوگ کے بعد یہ قیامت ان مائوں کے دلوں تک محدود ہو جائے گی جن کے لخت جگر اور پیارے بے گناہ خون میں نہلا دیے گئے بلاشبہ یہ بہت عظیم سانحہ تھا اور اس سانحہ نے بہت سی مائو ں کی گود کو اجاڑ دیا ہے سب سے پہلے تو میں ان سوگوار خاندانوں سے تعزیت کرتا ہوں جن کے بچے اور پیارے اور عزیزو اقارب ان سے بچھڑ گئے اور دعا کرتا ہوں اللہ پاک ان کو جوارے رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سفاقانہ فعل ہے ایسے ظالم لوگ اور وحشی درندے جو شرمناک حرکت کرتے ہیں اور معصوم جانوں پر حملہ کرتے ہیں یہ ملک و قوم کے دشمن ہیں۔
اسلام اس کی قطعا اجازت نہیں دیتا جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمعہ یہ ہے گویا ایک انسان کاقتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے اور یہ لوگ ایسی کاروائیوں سے اسلام ملک پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح کے جو لوگ ایسے واقعات میں معصوم جانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ذمہ دار کون ہے، ابھی تو ایسا محسوس ہو رہا ہے اس ملک میں دہشتگردی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ یہاں پر مسجد ،مندر ،چرچ اور کوئی جگہ محفوظ نہیں ۔اور قارئین افسوس ناک بات یہ ہے کہ کوئٹہ کے اندر یہ تیسرا حملہ ہو رہا ہے۔ اگست کے مہینے میں سول ہسپتال میں جو واقعہ رونما ہوا اس کے زخم ابھی تازہ ہیں اس حملے میں ٨٠ وکلاء بے گناہ شہید ہوئے ہیں۔مگر پھر بھی ہمارے سیکورٹی اداروں کو ہوش نہ آیا اور اس میں سب سے زیادہ ذمہ داری بلو چستان کے چیف منسٹر صاحب کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت دونوں کا یہ اہم فرض ہے کہ سیکورٹی کو یقینی بنائیں۔ ایک ماہ پہلے جو کالج میںواقعہ رونما ہوا جن لوگوں نے سیکورٹی کے معاملے میں غفلت کی ہے وہ سزا کے مستحق ہیں۔تاہم دہشت گرددں کے خلاف پوری قوم متحد ہو کر لڑ نا ہو گا خود کش حملوں کو روکنا مشکل ضرور ہے حکومت اور ریاستی اداردں کے اقدامات قابل فخر ہیں حکومت اور افواج پاکستان ملکر ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلیئے کام کر رہی ہے۔
Sacrifices
پا کستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں دی ہیں اس کی کسی اور ملک میں مثال نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر جنگ لڑ رہی ہے اور یقینا بڑی خوش آنئد بات ہو گی کہ ملک کی سلامتی اور بقاء کے لیئے تمام سیاست دان ایک میز پر مل کر بیٹھیں اور دہشت گردوں کے خلاف مل کر نہ صرف آواز اٹھایئں بلکہ اس موذی مرض جیسی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کیلیئے یکجاں ہوجائیں اور اس طرح کی ظالمانہ سازشوں کوبے نقاب کرنے کے لیے قانون بنایا جائے اوراگر کوئی آدمی ایسی جرات نہ کرے اور عدلیہ کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور ایسے لوگ جو یہ کاروائیاں کر رہے ہیں ان کو کیفر کردار تک پہچایا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضرب عضب آپریشن اور دیگر کاروایئوں سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ان کا متحرک ہونا تشوش ناک حالت کی عکاسی کرتا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک دہشت گردی کا سلسلہ ہمارے ملک میں چلتا رہے گا آخر اس کا ذمہ دار کون ہے اس میں پاکستانی عوام کا کیا قصور ہے جیسا کہ ہمارا جینا دوبھر ہو گیا ہے بد امنی پھیل رہی ہے دھماکے ہو رہے ہیں اور دن بدن ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے اس لیے ابھی وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنا ضمیر جگانا پڑے گا اور ہر پر امن طریقے سے ایسے تمام عناصر کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی ہو گی جو ہماری جان کے دشمن ہیں۔
ہماری سیکورٹی اداردں،اور حکمرانوں سے اپیل ہے کہ وہ ملک کی سرحدں اور ہماری جانوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اس لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے اور یہ ان کا فرض ہے اور آخر کار ہماری عدلیہ سے بھی اپیل ہے اگر کوئی شخص بھی جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو جو ملک اور عوام کو نقصان پہچائے اور بے گناہ لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے تو عدلیہ کا فرض ہے کہ ان کو ایسی عبرت ناک سزا دیں اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں تاکہ آنئدہ کوئی ایسی جرت نہ کرے آخر میں تمام پاکستانیوں سے التجاء ہے کہ ملک میں امن کا ماحول بنانے کے لیے اگر کوئی مشکوک شخص نظر آئے تونزدیکی سیکورٹی اداروں کو اطلاع دیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے اور آنئدہ سانحہ کوٹئہ انتہائی افسوس ناک جیسے واقعات سے بچنے کے لیے مستقبل میں ہم سب کو جاگنا ہو گا اور ان تمام عناصر کا ذمہ دار صرف حکومت کو نہیں ٹھراناہے بلکہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم سب مل کر اس دہشت گردی کا مقابلہ کریں ورنہ اس سے پوری طرح چھٹکارا ملنا مشکل ہے اور جب تک ہم سب اس کے خاتمے کے لیے کوشش نہ کریں اور اپنی طاقت کے مطابق اس میں اہم کردار ادا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔