دیامر (جیوڈیسک) سانحہ دیامر میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے اب تک زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا گیا۔ جوائنٹ انویسٹی گے شن ٹیم کوشش کررہی ہے کہ جرگہ ممبران کے ذریعے ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ نانگا پربت پر بدترین دہشت گردی کو سات روز گزر گئے لیکن ملزمان اب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے باہر ہیں۔
سانحہ میں ملوث 15 ملزمان کی شناخت کا دعوی کرنے والے یہ بھی دعوی کر رہے ہے کہ ملزمان دیامر کے پہاڑوں پر چھپے ہیں لیکن پھر بھی ان کی گرفتاری میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے۔ دیامر میں موجود جوائنٹ انویسٹی گے شن ٹیم ان کوششوں میں لگی ہوئی ہے کہ جرگے ممبران کے ذریعے ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ملزمان کی گرفتاری صرف جرگہ ممبران کے ذریعے ممکن ہے۔
دیامر آنے اور جانے والی گاڑیوں کی چیکنگ تو شروع کردی گئی ہے لیکن ملزمان کی گرفتاری کے لئے پہاڑ چڑھنے میں دیر کیوں کی جارہی ہے۔ وہ دہشت گرد جنہوں نے پاکستان پر وار کیا ان پر وار کیوں نہیں کیا جا رہا۔ گلگت بلتستان کے نئے چیف سیکریٹری یونس ڈھاگا کی جانب سے بھی اب تک ملزمان کی گرفتاری کے لئے کسی حکمت عملی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
جبکہ دیگر ادارے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کر رہے، سانحہ کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں کچھ پتا نہیں۔ دہشت گردوں کو کب پکڑا جائے گا یہ انہی لوگوں کو نہیں پتہ جو اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ سات روز بعد کوہ پیماوں کا سامان نانگا پربت سے اسلام آباد بھجوا دیا گیا۔