تحریر : ساحل منیر وطنِ عزیز پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر امتیازی قوانین کی مشقِ سِتم کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے اور معاشرے میں پائے جانے والے انتہا پسند عناصر نے اِن قوانین کو اپنے متشددانہ رحجانات کے اظہار کے لئے کھلے عام استعمال کیا ہے۔ماضی میں انہیں قوانین کی آڑ میں اقلیتی افراد پر توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگا کرنہ صرف انفرادی سطح پر وحشت و بربریت کا کھیل رچایا گیا بلکہ اجتماعی طور بھی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسیحی کمیونٹی کے گھروں اور آبادیوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔
سانحہء شانتی نگر،بہاولپور،گوجرہ،جوزف کالونی اور کوٹ رادھا کشن کے سوختہ جانوں سمیت درجنوں دلخراش واقعات آج بھی محروم و پساندہ طبقات کے عدمِ تحفظ وبے چارگی کی داستانِ الم بیان کر رہے ہیں۔مقامِ افسوس کہ ریاست کے اِن پر امن و بے گناہ شہریوں کو مذہبی جنونیت کا نشانہ بنانے والے افراد اور تنظیموں کے ساتھ ریاستی سطح پر کبھی بھی آہنی ہاتھوں سے نہیں نپٹا گیااور نہ ہی معاشرے کے اجتماعی شعور نے اِن درندہ صفت عناصرکی سنجیدگی کیساتھ حوصلہ شکنی کی۔ ان کے خیر خواہ، سہولت کار اور وابستگان کل بھی موجود تھے اور آج بھی کسی نہ کسی روپ میںانکے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
Tragedy, Kot Radha Kishan
مگر اب گزشتہ کچھ عرصہ سے عدلیہ نے اِن دشمنانِ انسانیت کے خلاف عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی جو حقیقت پسندانہ سٹینڈ لیا ہے وہ مذہبی اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام پر امن شہریوں اور انسان دوست حلقوں کے لئے وجہء تسکین ہے۔ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والے ملزمان کی سزائے موت کے تازہ ترین عدالتی فیصلے پر وقت کی کروٹ نے بہت سے سوالوں کے جواب دے دیے ہیں اور کم از کم عدلیہ اِس نتیجے پر ضرور پہنچ گئی ہے کہ قانون و انصاف کی دھجیاں اڑانے والے یہ ننگِ انسانیت لوگ کسی رعائت کے مستحق نہ ہیں۔
سانحہء کوٹ رادھا کشن کے سوختہ جانوںکے حوالے یہ عدالتی فیصلہ یقینناًمذہبی اقلیتوں کی داد رسی کا تاریخی بیانیہ ہے جِس کا بھر پور خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔واضح رہے کہ نومبر 2014 ء میںصوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی علاقے کوٹ رادھا کشن میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین نے توہینِ قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں بھٹہ مزدور مسیحی جوڑے شہزاد اور شمع کو زندہ جلا دیا تھا۔اس وقوعہ کا مقدمہ لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں دوسال تک زیرِ سماعت رہا اور اب عدالت نے اِس واقعہ کے نامزد ملزمان میں سے پانچ کو قتل کے براہِ راست مجرم قرار دیتے ہوئے دو دو مرتبہ سزائے موت جبکہ نو دیگر ملزمان کودو دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔