لاہور (جیوڈیسک) سانحہ گلشن اقبال ناقص سیکورٹی انتظامات کے باعث ہوا ،دہشتگرد نے مرکزی راستے کی بجائے پارک کے مختلف ٹوٹے ہوئے راستوں کو استعمال کیا اور بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام دکھا گیا جس کے نتیجے میں 74 ہلاکتیں اور 300 افراد بچے خواتین اور مرد زخمی ہوئے ،خاکے، اور مبینہ دہشت گرد جیسی اطلاعات سب غلط ثابت ہوئیں، سانحہ کے بعد پولیس، ضلعی حکومت اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں نے اپنے اپنے طور پر رپورٹ بنانا شروع کر دی۔
ذرائع کے مطابق ابتدائی رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پارک کے 2 گیٹ ایک اور 5 عوام کیلیے کھلے رہتے ہیں جبکہ مرکزی دروازہ بند ہوتا ہے اورسائیڈ کے 2 چھوٹے دروازے کھلے رہتے ہیں ،یہاں پولیس اورسیکیورٹی گارڈ بھی موجود ہوتے ہیں، وقوع کے روز یہاں اس قدر زیادہ رش تھا کے ان راستوں کو استعمال کرنے کیلیے دس سے پندرہ منٹ گیٹ کراس کرنے میں لگ سکتے تھے،اس دوران دھکم پیل لازمی ہے ،کوئی خود کش حملہ آور یہ رسک نہیں لے سکتا کیونکہ دھکم پیل میں خودکش جیکٹ کا سرکٹ بریک ہوسکتا ہے۔
ان دو دروازوں کے علاوہ باسک بال، مسجد والی سائیڈ، دوبئی چوک سے آنے والی پارک کی دیوار، ورکشاپ والی سائیڈ کے جنگلے، دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جہاں سے جو چاہیے آرام کے ساتھ پارک کے اندر داخل ہوسکتا ہے، آج تک کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی، وقوع کے بعد پولیس نے 4 مشکوک افراد کو دیکھا 3 فرار ہوگے ایک نے خود کواڑا لیا اتنے رش میں تین افراد کا یہاں سے فرار ہونا سوالیہ نشان ہے جبکہ جس دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑایا اس کو کس نے دیکھا ابتک پتہ نہیں چلا جس سے دہشت گرد کا خاکہ بھی مشکوک ہوگیا، محمد یوسف نامی شخص کو ممکنہ دہشت گرد ظاہر کیا گیا حالانکہ اس واقع میں اس کی صرف ٹانگیں ضائع ہوئیں اگر اس نے جیکٹ یا بریف کیس پکڑا ہوتا تو نہ پیٹ رہتا نہ ہاتھ کی انگلیاں، اسی طرح ایک کلعدم تنظیم جس نے خودکش دھماکا کرنے والے کا نام صلاح الدین ظاہر کیا ہے۔
پاکستان بھر میں کسی جگہ یاذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی لہٰذا حساس اداروں نے بھی مختلف طریقے سے تحقیقات شروع کردی ہیں ، حساس اداروں نے فوری طور پر پارکس میں خواتین اوربچوں والی سائیڈز کے اردگردچاردیواری یا جنگلے تعمیر کرنے کاکہا ہے جس کو پی ایچ اے نے پارکوں کی خوبصورتی متاثر ہونے کے پیش نظر مسترد قراردیدیا ہے جبکہ کلوز سرکٹ کیمرے، واک تھروگیٹ، جنگلوں کے اوپر خاردھار تاریں لگانے سمیت دیگر انتظامات کیے جارہے ہیں۔