پاکستان میں ظلم کی داستانیں اپنی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ کچن میں کام کرتی سلنڈر پھٹنے سے مرنے والی بہو ہو یا بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلنے والے مزدور ہوں، دولت کے نشے میں بدمست زمینداروں کے ہاتھوں کچلتے غریب مزدور ہوں یا سانحہ 12مئی کی خون ریزی ہو۔ معصوم زینب کا قتل ہو یا فرشتہ صفت کم سن بچوں کی جنسی ویڈیوز کا سیکنڈل ہو۔ سانحہ ساہیوال میں پولیس کی جانب سے بچوں کے سامنے والدین کو مارنے کا بے رحم عمل ہو یا عابد بوکسر اور راؤانوار کے جعلی پولیس مقابلے ہوں۔یہ سب ایسے ظلم کی مثالیں ہیں جن کو دیکھ کر انسان کانپ جاتا ہے۔
پاکستان میں قتل عام کے واقعات میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک ایسا واقعہ ہے جس کو تمام ٹی وی چینل براہ راست دیکھا رہے تھے۔ یہ وہ سانحہ ہے جس کے مجرم نامعلوم نہیں بلکہ معلوم مجرم ہیں۔یہ وہ سانحہ ہے جس کے مجرم قتل کا اقرار کرتے ہیں مگر کس کے حکم پر اس کی پردہ داری رکھتے ہے۔ یہ وہ سانحہ ہے جس کی FIRمیں پولیس کے ایک سپاہی سے لے کر اس وقت کے وزیر اعلی اور وزیر اعظم کے نام شامل ہیں۔ یہ وہ سانحہ ہے جس سے وزیر قانون اور خود کو خادم اعلی کہلانے والے وزیر اعلی سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے بعد بھی بے خبر ہیں۔ یہ وہ سانحہ ہے جس کی ٖFIR درج کرانے کیلئے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا گیا اورصرف ایک FIRدرج کرانے کیلئے آرمی چیف کو مداخلت کرنا پڑی۔ یہ وہ سانحہ جس میں ملزم نامزد ہونے پر وزیر اعلی سے لے کر وزیر اعظم تک سے تفتیش کی گئی ہے۔یہ وہ سانحہ ہے جس کے تمام حقائق معلوم ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ معلوم نہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کو 5 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اس دوران اس کیس نے بہت لمبا قانونی سفر طے کیا ہے مگر اشرافیہ کے بنائے ہوئے کرپٹ سسٹم کی پیچیدگیوں کے باعث ابھی تک روز اول کے مقام پر موجود ہے۔ شہباز شریف کی طرف سے بنائے جانے والے جسٹس باقر نجفی کمیشن نے جب ایک انگلی کیا پورا ہاتھ ہی پنجاب حکومت پر رکھتے ہوئے اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا تو اس رپورٹ کو پبلش ہونے سے روک کر ایک اور کمیشن تشکیل دے کر اپنی مرضی کی رپورٹ مرتب کرائی گئی جس میں سب کو ہی کلین چٹ مل گئی۔ اور جب اس سانحہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری خود سپریم کورٹ میں جا کر اس کیس کیلئے ایک مضبوط JIT بنوانے میں کامیاب ہوتے ہیں توملزمان اس JIT کو لاہور ہائیکورٹ کے ذریعے تفتیش سے رکوانے کے احکامات جاری کروا لیتے ہیں۔ اس طرح یہ کیس جتنے قدم آگے چلتا ہے اتنے ہی قدم پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔
ریاستی دہشتگردی سے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والے 14 افراد اور 100سے زیادہ زخمیوں کے ساتھ نامزد ملزمان کے علاوہ پاکستان کی ہر سیاسی و مذہبی جماعت اور شخصیت نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کے انصاف کیلئے ہر قدم پر ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ لیکن اس سسٹم میں رہتے ہوئے ملزمان تک پہنچنے کیلئے عدالتی نظام سے گزرنا ہی ناممکن ہو چکا ہے۔
عدالتی نظام سےعوام کی مایوسی کوئی نئی بات نہیں لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عینی شاہدین اور ویڈیو کی صورت میں غیر معمولی ثبوت موجود ہونے کے باوجود انصاف میں تاخیر ہونا اس نظام پر سوالیہ نشان ہی تو ہے۔ سابقہ آرمی چیف کی طرف سے انصاف کی یقین دہانی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے انصاف کا وعدہ، موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا اپنی ہر تقریر میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذکر کرتے ہوئے اس سانحہ کے شہداء کو حکومت میں آ کر انصاف دلانے کی تکرار۔ مگر ان تمام منصب اقتدارپر فائز ہونے والی شخصیات کی طرف سے وعدوں سے زیادہ کوئی قدم نہ اٹھانا اس قانون پر سوالیہ نشان نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سوالیہ نشان پر ایک سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ قانون پر یہ سوالیہ نشان کب تک؟