لاہور (جیوڈیسک) سانحہ ماڈل کی جوڈیشل تحقیقات کے پہلے روز ہی حکام نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا بلکہ ادھوری رپورٹس کے ساتھ پیش ہوکر بحث میں الجھے رہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی سی او کیپٹن ریٹائرڈ عثمان اور ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ نے کوئی رپورٹ کمیشن کے سامنے پیش نہیں کی بلکہ الٹا کمیشن سے بحث کرتے رہے کہ یہ معاملہ ان سے متعلق نہیں لہذا اس لئے انہوں نے اس پر کوئی رپورٹ تیار ہی نہیں کی۔
سماعت کے دوران آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اور ڈی سی او کیپٹن ریٹائرڈ عثمان کی جانب سے بھی کمیشن کے سامنے انتہائی مختصر رپورٹ جمع کرائی گئی اور متعلقہ دستاویزات ہی منسلک نہیں کئے۔ کمیشن نے دستاویزات کی عدم فراہمی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے تینوں حکام کو ہدایت کی ہے کہ کل کیس کی دوبارہ سماعت دوران رکاوٹیں ہٹانے سے متعلق مکمل رپورٹ اور اس کارروائی سے قبل کس کس کو نوٹس جاری کیا گیا جب کہ کارروائی کے دوران کس پولیس افسر کی ڈیوٹی لگائی گئی اور سانحہ کے بعد کیس کی تفتیش سے متعلق مکمل رپورٹ پیش کی جائے۔
واضح رہے کہ 17 جون کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادری کے گھر کے باہر سے بیریئرہٹانے کے معاملے پر پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنان میں تصادم ہوا تھا جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق جبکہ 80 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد ملک بھر کی مختلف سیاسی اورمذہبی جماعتوں نے سانحے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کا ذمہ دارپنجاب حکومت کو ٹھہرایا تھا جس کے بعد وزیراعلیٰ شہبازشریف نے واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر کمیشن نے انہیں بھی ذمہ دار ٹھہرایا تو وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کروں گا۔