لاہور (جیوڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ ہائیکورٹ کے ریکارڈ پر لانے کے لئے اور ریٹائر جج کی سربراہی میں بنائی گئی حکومتی جائزہ کمیٹی کیخلاف دائر درخواستوں پر پنجاب حکومت سے تین مارچ تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرائے گئے مجرم کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جارہی بلکہ حکومت نے ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لینے کیلئے ایک نئی جائزہ کمیٹی بنا دی جس نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو ناقص قرار دیدیا جو توہین عدالت اور عدلیہ کا مذاق اڑانے کے برابر ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ حکومت کی جائزہ کمیٹی کالعدم کی جائے اور ماڈل ٹاؤن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا جائے، جس پر فاضل بینچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بھی یہی خدشہ ہے کہ اگر ماڈل ٹاؤن کمیشن کی رپورٹ غائب ہو گئی تو کون ذمہ دار ہو گا کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر آچکی ہے کہ پنجاب حکومت نے طاہر القادری پر قاتلانہ حملے کی رپورٹ گم کر دی ہے۔
بینچ کو بتایا گیا کہ حکومت نے رپورٹ منظر عام پر لانے کی مزید دو درخواستوں میں جواب داخل نہیں کرایا جس پر عدالت نے پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ پنجاب حکومت نے عدالتوں کو مذاق سمجھ رکھا ہے، آٹھ آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود عدالتوں میں جواب داخل نہیں کرائے جاتے۔