قانون کی بے بسی ہی کہیں گے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ٹی وی چینل کے کیمروں کے سامنے 14 لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور آج تک ایک بھی گرفتاری عمل میں نہیں آتی،یہ قانون کی بے بسی ہی ہے کہ FIR کیلئے 70 دن کا دھرنا دینا پڑہتا ہے ، قانون کی بے بسی نہیں تو کیا ہے کہ شہباز شریف کا اپنی مرضی کا جوڈیشل کمیشن بنانا اور اپنی ہی طرف اٹھتی ہوئی انگلی دیکھ کر نجفی رپورٹ پبلش کرنے سے روک دینا،اس کو قانون کی بے بسی ہی کہیں گے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شامل پولیس افسران کوعہدوں سے ہٹانے کا حکم بس حکم ہی بن کر رہ جاتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کی نشاندہی کرنے کے باوجود ان کو سیکرٹری داخلہ جیسے اہم عہدوں سے نوازنے پر پاکستان کا وزیر اعظم مجبور نظر آتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے حادثات رونما ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ داخل دفتر ہو جاتے ہیں۔ جس کی واضح مثال 19جنوری2019 کو ہونے والا سانحہ ساہیوال ہے ۔ جس میں درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس نے سر عام پبلک میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں کا نشانہ بنا یا۔ سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہر جانب اس کی مذمت کی گئی اور ذمہ دارن کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ سامنے آیا۔ ۔ ۔ لیکن پھر وہ ہی ہوا جو ماضی کی حکومتوں میں ہوتا رہا۔ ۔ اہلکاروں کو معطل کیا گیا ، تفتیش ہوئی ، تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی اور آج یہ کیس کہاں ہے اس کی کیا اپ ڈیٹ ہے اس سے سب بے خبر ہیں۔
لوگ اس کو ہمیشہ کی طرح بھول کراپنی روزمرہ زندگی میں مصروف ہو چکے ہیں۔لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایسا سانحہ ہے جو کہ تقریباً 5سال گزرنے کے باوجود آج بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس سانحہ کے ذمہ دارن کے سروں پر موت کی تلوار بن کر موجود ہے۔17جون 2014 کو اقتدار کے نشے میں صاحب اختیار نے خون کی جو ہولی کھیلی تھی وہ خون آج بھی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں کے خون کا سودا نہیں کیا بلکہ آج بھی قصاص کیلئے قانونی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں قانون کی بے بسی پر تو کئی مثالیں موجود ہیں لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن نے قانون کی بے بسی کو پوری دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا۔ جب اس سانحہ کی FIR کیلئے 70دن کا دھرنا دینا پڑا اور اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کی مداخلت پر FIR درج ہوئی۔ لیکن FIR سے زیادہ کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ بعد میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والی تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد سے انصاف کا وعدہ کیا گیا ۔ لیکن وہ بھی صرف فوٹو سیشن تک ہی محدود رہا ۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی طرف سے اپوزیشن میں رہتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیلئے کیے جانے والے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے موجودہ پنجاب حکومت کی طرف سے ایک نئی JITتشکیل دی گئی ۔ اس JIT کی طرف سے پہلی بارسانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR میں نامزد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں جا کر تفتیش کی گئی اور ان سے میڈیا رپورٹس کے مطابق 25سوالات کئے گئے ۔ اور پھر اچانک پنجاب حکومت کو کوئی نوٹس جاری کئے بغیر لاہور ہائی کورٹ کا ایک فل بنچ تشکیل دیا جاتا ہے اور حکومتی موقف سننے بغیر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی JIT کو کام سے روک دیا جاتا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی موجودہ صورت حال میں یوں کہا جائے کہ “کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ” تو غلط نہ ہو گا ۔ اس سانحہ کی جو رپورٹ اشرافیہ کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہے اس کو روک دیا جاتا ہے۔ اگر سابقہ صاحبِ اقتدار اس سانحہ میں ملوث نہیں ہیں تو پھر صاف شفاف تحقیقات میں روکاوٹیں کس لیے پیدا کرتے ہیں؟ بے بس قانون کو اپنے اشاروں پر کیوں گھماتے ہیں؟ سانحہ ماڈل میں جن لوگوں کو جان سے ماراگیا ان کو انصاف تو ملے گا ۔ اگر ہمارے قانون کے اداروں نے نہ دیا تو روزِ قیامت اللہ کی بارگاہ سے ضرور ملے گا لیکن پھر صرف سانحہ برپا کرنے والے ہی نہیں بلکہ ان کو بچانے والے بھی عدالتِ خداوندی میں کھڑے ہوں گے۔