گذشتہ روز 17 جون 2021 کا دن تھا تو مجھے پاکستان عوامی تحریک کے جناب نوراللہ صاحب کا میسج آیا جنہوں نے پرانی یادیں تازہ کردی اسی دن آج سے 7سال قبل مسلم لیگ ن کی حکومت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیا تھا اور گذشتہ روز شہدائے ماڈل ٹاؤن کے شہدا کی 7 ویں برسی ہے بھی منائی گئی لاہور پریس کلب کے باہر شملہ پہاڑی چوک میں پاکستان عوام تحریک کے کارکنوں نے شہدا کے ورثا کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا اور ابھی تک انصاف کی فراہمی میں کوئی پیش رفت نہیں مہنگے ترین اور نامور وکلاء کی قانونی خدمات لے رکھی ہیں کروڑوں روپے فیسیں ادا کرنے کے باوجود انصاف کا دور دور تک نام و نشان نہیں ان متاثرین کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے سانحہ کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے تاکہ بنیادی محرکات اور ذمہ داران کی نشاندہی ہو سکے اس وقت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک یتیم بچی بسمہ امجد کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا آپ اپنی ماں کا تعلیم حاصل کرنے والا خواب پورا کریں انصاف ہم دیں گے، بسمہ کی والدہ کو بھی17 جون 2014 کو قتل کیا گیا 14 شہریوں کے قتل میں ملوث کسی پولیس والے کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی آج تک نہیں ہوئی 7 سال سے صرف تاریخیں مل رہی ہیں مظلوم دھکے کھا رہے ہیں اور قاتل دندناتے پھر رہے ہیں ملزمان کو سابق دور حکومت میں بھی ترقیاں مل رہی تھیں آج بھی مل رہی ہیں مظلوموں کیلیے کچھ نہیں بدلا، آخر ریاست کا کوئی ادارہ تو بتائے ماڈل ٹاؤن قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟
تمام ثبوت، ویڈیوز اور شہادتیں موجود اور معزز عدالتوں کے ریکارڈ کا حصہ ہیں موجودہ حکومت جوڈی چوک میں ڈاکٹر طاہر القادری کی امامت میں نماز عید بھی پڑھ چکی ہے نے بھی شریف برادران کی درج کروائی گئی وہ ایف آئی آرز بھی ختم نہیں کی جو تھانوں میں پڑی ہیں اور ہی ان کے چالان عدالتوں میں پیش ہوئے اس وقت تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان، ق لیگ، مجلس وحدت المسلمین سمیت تمام جماعتوں کی مرکزی قیادت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مذمت کی اور قاتلوں کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ بھی کیاہر جماعت کہتی ہے ماڈل ٹاؤن میں ظلم ہوا مگر عملاً مظلوموں کے ساتھ صرف ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے کارکن ہی کھڑے نظر آرہے ہیں کیا نظام انصاف اتنا لاغر، مجبور اور بے بس ہے کہ طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو انصاف دیتے ہوئے اس کی سانس پھول جاتی ہے؟ طاقتور کو چھٹی والے دن بھی انصاف مل جاتا ہے اور مظلوم نسل در نسل حصول انصاف کے لیے ایڑیا رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
آج سے 7 سال قبل میرا ایک کالم شہدا ماڈل ٹاؤن اور ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف کے قتل کے حوالہ سے شائع ہوا تھا جو آج بھی تازہ لگتا ہے اور اسکو آج پھر دوبارہ شائع کررہا ہوں ادارہ منہاج القران میں ہونے والی پولیس کی غنڈہ گردی اور ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف پرقاتلانہ حملہ موجودہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ویسے تو آج تک کوئی بھی حکومت پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ مخلص نہیں رہی ہر دور میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا اور ان لٹیروں کو کسی نے نہیں پوچھا یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس نہج پر آچکے ہیں کہ ہماری حفاظت پر مامور پولیس ہمیں ہی مارنے پر تلی ہوئی ہے ادارہ منہاج القران میں پولیس نے اپنے روایتی تشدد کے ریکارڈ توڑ دیے اپنے والدین کی عمر کے بزرگوں پر اس بے دردری سے لاٹھیاں چلائیں کی ایک عام دیکھنے والے کی بھی آنکھ بھر آئی کیا ہمارے حکمران اتنے ہی فرعون بن چکے ہیں کہ انہیں اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا عوام خدمت کے یہ نام نہاد حکمران اپنے خاندان اور خود اپنے لیے تو سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو ہمراہ لیے گھومتے ہیں اور جب انکا دل چاہتا ہے کسی بھی غریب شہری کو سرعام تماشہ بنا ڈالتے ہیں کیا یہ ہمارے ہی ملک کی پولیس ہے جو اپنے بزرگو ں کو بے دردی سے پیٹ رہے ہیں۔
ایسے تو مقبوضہ کشمیر میں ہوتا جہاں پر ہندو فوجی مسلمان مردو اور عورتوں پر تشدد کرتے ہیں کیا ہمارے حکمرانوں کی طرح ہماری پولیس بھی بے حس ہو چکی ہے جو اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کی دہلیز پار کروا رہی ہے پولیس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے کارکن بھی انتقامی کاروائیوں میں کسی سے پیچھے نہیں جہاں پولیس نے اپنی بربریت کا کھیل کھیلا وہی پر پولیس کی سرپرستی میں لیگی کارکن بھی ڈنڈے مار مار کر گاڑیوں کے شیشے توڑتا رہا اور بعد میں بڑے فخریہ انداز میں پولیس والوں نے اسے رخصت کیا جیسے اس نے کوئی بڑی جنگ جیت لی ہواس واقعہ کے اگلے دن میں منہاج القران کے دفتر میں موجود تھا کہ اطلاع ملی حکومت نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے ایک کمیشن بنا دیامیرے ساتھ بیٹھے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سیکریٹری جنرل اور ناظم اعلی خرم نواز گنڈا پور نے کہا روحیل بھائی ہم اس کمیشن کو نہیں مانتے کیو نکہ سب کچھ تو ریکارڈ پر ہے کہ پولیس نے کیسے دہشت گردی کامظاہرہ کرتے ہوئے سیدھی گولیاں چلائیں اور ہمارے 7کارکن شہید ہو گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے جب سب کچھ واضح ہے تو پھر کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے آپ کو لالچ دیکر بچالے گی مگر ہم کسی قسم کے کمیشن کو نہیں مانتے ہمارا مطالبہ بس یہ ہے کہ وزیر اعلی اور وزیر قانون کے خلاف ہماری ایف آئی آ ر درج کی جائے اور یہ دونوں افراد فوری طور پر اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں ورنہ ہمارے کارکنوں میں جو غم وغصہ پایا جارہا ہے وہ کہیں ان حکمرانوں وقت سے پہلے ہی تباہ برباد نہ کردے اس لیے اب بھی ان کے پاس وقت ہے کہ ہمارے شہیدوں کا لہو خشک ہونے سے پہلے پہلے یہ راہ راست پر آجائیں اورجو بادشاہت کے یہ خواب دیکھ رہے ہیں ان سے باہر نکل آئیں میں وہاں سے واپس اپنے دفتر آگیا اور اگلے دن پھر ایک بری خبر میری منتظر تھی کہ ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف کو گولیاں مار دی گئی اور انکو تشویشناک حالت میں ہسپتال داخل کروادیا گیا کیا ہماری پولیس صرف مخالفین کو کچلنے کے لیے ہی رہ گئی یا پھر ہمارے حکمرانوں کی حفاظت کے لیے مفت کی تنخواہیں وصول کرتی پھر رہی ہے کیا پاکستان بھی کبھی ترقی کریگا یا یونہی لٹیروں کے ہاتھوں میں لٹتا رہے گا اگر ہمارا کوئی بھی ادار ہ ملک سے مخلص ہے تو پھر ان لٹیروں کے خلاف بھی آپریشن کیا جائے جن کے خلاف متحدہ یو تھ کونسل پاکستان کے صدر عظیم طارق اور جنرل سیکریٹری میاں امجد ایڈووکیٹ کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کررکھی ہے پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سوئس پارلیمینٹ نے یکم اکتوبر 2010 میں نا جائز اثاثوں کی واپسی کا ایکٹ پا س کیا ہے جس کے بعد سے اب تک کئی ممالک اپنا لو ٹا سرمایہ واپس لے جا چکے ہیں۔
جبکہ سوئس قانون کے مطابق قرضے کی ریکوری منی لانڈرنگ کریمنل تنظیم سے تعلق چوری اور کرپشن جیسے الزامات کی صورت میں کھاتے دار کی تفصیلات فراہم کر نا بینک کی ذمہ داری ہے لیکن سوئس حکومت کی نا جائز دولت واپس کر نے کی اس پیش کش اور سہولیات پاکستا ن کی حکومت اور اداروں نے کوئی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس اہم قومی مسئلے سے لا تعلقی کا مجرمانہ ر ویہ اختیا ر کر رکھا ہے پٹیشن میں بطور ثبوت عالمی اداروں کی رپورٹ بھی پیش کی گئی ہیں جس میں اس بھیا نک حقیقت کی نشان دہی کی گئی ہے اس ما لیا تی دہشت گردی کی وجہ سے ایک عام پاکستا نی کس قدر مسائل اور مشکلات کا شکار ہو گیا ہے اگر حکومت لو ٹا سرمایہ واپس لے آئے تو پاکستا ن تما م بحرانوں سے نکل سکتا ہے پاکستا ن کی مو جودہ سما جی و سیا سی افرا تفری کے پیچھے دیگر عوامل کے علا وہ ایک بڑی وجہ معاشی بد حالی ہے درخوست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ لوٹی دولت واپس لانے کے لیے قانون بھی مو جود ہیں اور ادارے بھی لیکن سیاسی مصلحتوں اور مفاد پرستی کی و جہ سے اس قومی مسئلے پر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی لہذامعزز عدالت سے درخوست ہے کہ پاکستان کی سیاسی و معاشی خود مختاری اور وطن عزیز کے غریب اور مفلوک الحال عوام کی مشکلات سے جڑے اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کر ے درخواست میں وفاقی وزارت داخلہ وزارت خارجہ وزارت قانون نیب فنانشل ما نیٹرنگ یو نٹ اور نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کو بھی فریق بنا یا گیا ہے آصف زرداری نواز شریف شہباز شریف، چوہدری شجاعت، اسفند یار ولی، الطاف حسین، اعظم سواتی اور جہانگیر ترین سمیت ملک کے بڑے سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے۔