لاہور (جیوڈیسک) سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کی زیرِقیادت متحدہ اپوزیشن کے احتجاج کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی زیر قیادت متحدہ اپوزیشن کا احتجاج آج مال روڈ پر ہو گا۔
احتجاجی جلسے کے لیے پنجاب اسمبلی کے سامنے کنٹینر پر اسٹیج کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں جبکہ کرسیاں، لائٹیں، جنریٹر اور دیگر سامان بھی منگوا لیا گیا ہے۔
جلسے کے لیے مال روڈ کے دونوں اطراف لائٹس کا بھی بندوبست کیا گیا ہے جبکہ احتجاج کی تیاریوں کے باعث مال روڈ سے ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہے۔
شاہراہ فاطمہ جناح،کچہری روڈ، ہال روڈ، کوپر روڈ، بوڑھ والا چوک اور ایجرٹن روڈ پر بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے احتجاجی جلسے کے لیے آج دوپہر 12 بجے کا وقت دیا ہے، جن کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری اور عمران خان ایک ہی اسٹیج سے خطاب کریں گے۔
لاہور میں احتجاجی جلسے کے حوالے سے گذشتہ روز ڈاکٹر طاہر القادری اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات بھی ہوئی جس کے بعد دونوں رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
اس موقع پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے جانے کا وقت آگیا ہے لیکن شریف برادران کی خواہش ہے کہ ان کا تخت بچ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کا مقصد پنجاب حکومت سے جان چھڑانا ہے اور عنقریب ہم ان حکمرانوں کو نکال باہر کریں گے۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 8 جنوری کو آل پارٹیز کانفرنس کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس بعد پریس کانفرنس کے دوران 17 جنوری سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ سے استعفے مانگیں گے، نہیں بلکہ لیں گے۔
پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو احتجاج میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔
اس موقع پر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جس کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔
دوسری جانب اس واقعے کی جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی تحقیقات بھی کرائی گئیں، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا تھا۔
جس کے بعد عوامی تحریک کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، جس نے پنجاب حکومت کو مذکورہ انکوائری رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔
ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردیئے اور حکومت کے خلاف ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس بنایا گیا۔