ہم جس برصغیر میں رہتے ہیں، دنیا اِسے سونے کی چڑیا سے منسوب کرتی آئی ہے۔ اسی لیے یہاں غالب قومیں آتی رہیں اور اس خطے سے مستفید ہوتی رہیں۔زیاد ہ دُور نہیں جاتے، برصغیر کی قدیم ترین قوم داروڑ قوم سے بات شروع کرتے ہیں ۔برصغیر میں رہنے والی ا س قوم نے برصغیراس کے پانیوں کے چشموں ،دریائو ںکی روانیوں ، فلک بوس بلند تریں پہاڑوں، اس کی زرخیز زمینوں،اس کے باغات کے پھلوں اور اس کے سمندروں سے فائدہ اُٹھاتے رہے۔ ان ساری نعمتوں کو شاہد دراوڑ استعمال کرتے کرتے سست جا ن ہو گئے۔ان کی سست جانی کی وجہ سے پھر فطرت نے اپنا کام شروع کر دیا۔ داروڑاپنے وطن کی حفاظت نہ کر سکے۔ ان کی کمزرویوں کی وجہ سے غالب قوم آریا،ان پر چڑھ دھوڑی۔ کیونکہ ان کا و طن برصغیر، سونے کی جو چڑیا جو ٹھیرا ۔ آریوں نے زمین کے مالکوں، دراوڑوں کی نسل کشی شروع کی۔ یہ اسی طرح ہے جیسے برطانیہ سے گئے گورے انگریزوںنے امریکی خطہ میں ریڈ انڈین کے ساتھ کیا۔ اب بھی برصغیر اور امریکہ میں بچے کچھے یہ لوگ اپنے حقِ مالکیت کے لیے روتے دھوتے رہتے ہیں۔ مگر اقتدار کے نشے میں غالب لوگ کب کسی کواُن کے حقوق دیتے ہیں؟
اگر دیکھا جائے کہ جس رب نے یہ حسین جمیل زمین ،اپنے ایک کن فیکون کے حکم سے بنائی تھی۔ پھرد نیا میں جنتے انسان اوّل سے آخر تک اپنی اسکیم کے مطابق پیدا کرنے تھے ،ان کی روحوں کو اپنے سامنے حاضر کر کے دربار لگایا اور ان سے کہا،کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں،سب نے کہا کہ آپ ہمارے رب ہیں، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ پھر رب نے کہا کہ زمین میں تم نے میرے احکامات کے مطابق رہنا ہے۔ رب نے اپنے بندوں کے درمیان برابر کا حق رکھا تھا۔ان سب باتوں کے ساتھ شیطان کو بھی رب نے پیدا کیا۔ پہلے پہلے سب لوگ اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے حق دیتے رہے اور زمین میں سکون اور امن تھا۔ پھر شیطان نے اپنی اسکیم کے مطابق آوم کے بیٹوں ، عابیل قابیل میں سے ایک بیٹے کو دوسرے بیٹے کے خلاف کیا۔ اُس نافرمان نے اپنے حق سے زیادہ کادعویٰ کیا۔ پھر اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ دنیا میں یہیں سے انسانوں میںحقوق کی لڑائیاں شروع ہوئیں۔اللہ نے اپنے بندوں کو برابر کے حقوق دلانے کے لیے اپنے پیغمبر وں کو بھیجا۔ کسی نے ان کی بات مانی اور کسی نہیں سنی اور آپس میں حقوق کی لڑائی کی جو آج تک جاری و ساری ہے، جس میں ایک ہندو مسلمان کی بھی لڑائی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات عمل کرتے تو اللہ آسمان سے پانی برساتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی ۔ پھر کیا یہ حقوق اور ملکوں کی لڑئیاں ہوتیں؟
آریوں اور انگریزوں کے بعدفطرت کے قانون کے مطابق جب ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان برصغیر میں آئے تو انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق پرانی قوموں کے حقوق سلب نہیں کئے۔ بلکہ ان سے ممکن حد تک رواداری بھرتی۔ اس روادری کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے دیکھتے برصغیر کے کروڑوں باشندے مسلمانوں ہونے لگے ۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں برصغیر میں امن و امان تھا۔ دونوں بڑی قوموں میں روادری تھی۔ فطرت کے مطابق جب مسلمان بھی سست روی کا شکار ہوئے تو اللہ نے ایک اور قوم انگریز کو ان دونوں پر مسلط کر دیا تھا۔ دو سو سال بعد دونوں نے انگریز کی غلامی سے نکلنے کے لیے مل جل کر جدو جہد کی۔ انگریزوںکے برصغیر چھوڑے پر ہنددئوں نے اپنے حق سے زیادہ چھننے کی کوشش کی اور فلسفہ دیا کہ قومیں اوطان سے بنتیں ہیں۔ مسلمانوں نے نظریہ پیش کیا کہ مسلمان قوم عام قوموں کی طرح نہیں ہے۔علامہ اقبال نے اس تشریع اس طرح کی:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر ۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول عاشمی۔
ایک طرف ہندو اور دوسری طرف مسلمان۔ آخر میںبین الاقوامی اصول پر طے ہوا کی جس جگہ ہندو زیادہ ہیںوہاں ہنددئوں کی حکومت بھارت اور جہاں مسلمان زیادہ وہاںمسلمانوں کی حکومت پاکستان ۔اس بین الاقوامی فارمولے کے تحت برصغیر کو دو ملکوں میںتقسیم کر دیا گیا۔ ہنددئوں نے اس تقسیم کو دل سے تسلیم نہیں کیا اوراپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔جبکہ پاکستان نے دو قومی نظریہ، جس کی بنیاد قائم ہوا تھا چھوڑ دیا۔ پاکستان مقامی قومیں نے سر اُٹھا یا۔ بھارت نے سندھ میں جی ایم سید اور الطاف حسین کو استعمال کیا۔ سابق صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان کو۔ یہ پاکستان دشمن اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود تو کامیاب نہ ہوئے سکے۔ مگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی بنگالی قومیت نے رنگ دکھایا۔
شیخ مجیب نے بنگالی قومیت پر علیحدگی کی تحریک شروع کی اور ہندوستان نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کرکے پاکستان کا ایک بازو کاٹ دیا۔اب بھی بھارت پاکستان کو توڑ کر اَکھنڈ بھارت بنانے کے پالیسیوں پر عمل کر کے اپنا غلام بنانے کی شازش پر عمل درآمند کر رہا۔اگر پاکستان میں مسلمان ایک قوم بن کر رہتے مسلمان رہتے اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ پر عمل کرتے اور بھارت کے مقابلے میںڈٹے رہتے تو بھارت اس کے ایک بازو مشرقی پاکستان کو نہ توڑ سکتا۔بھارت اب بھی کہتا ہے کہ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے اب اس کے دس ٹکڑے کروں گا۔
صاحبو! باقی ساری باتیںزمنی ہیں کہ پاکستان کی فوج کی غلطی تھی یا سیاستدانوں کی غلطی تھی۔ نہیں بلکہ پوری قوم کی غلطی تھی۔یہ ایک الگ بحث ہے اور اس میں وزن بھی ہے۔مگراب بھی باقی پاکستان میں سب سے بڑی بات کہ دو نظریہ قومی کی بنیاد پرمدینہ کی فلاحی اسلامی جہادی ریاست قائم کر دی جائے۔مقامی قومیتوں کے حقوق پر ممکن حد عمل کرتے ہوئے پاکستانی یک جان ہوجائیں۔ تواب بھی کچھ نہیں گیا۔یہاںپرہی سونے کی چڑیابرصغیر موجود ہے اور ناپ تول کا گز بھی۔ اللہ کے رسولۖ کی ہندوستان پرغلبے والی حدیث بھی۔پھر مثل ِمدینہ اسلامی فلاحی،جہادی، ایٹمی میزائل طاقت اور ایمان سے لبریز پاکستانی قوم کی طاقت کے سامنے سامنے دشمن نہیں ٹہر سکے گا۔پھر بھارت کے مسلمانوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور کشمیر کے مسلمان بھی بھارتی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے۔
بنگلہ دیش بھی واپس اپنی ملت میں آجائے گا۔ ہندو نے جیسے برصغیر کی قدیم قوم، دراڑوں کو ڈرا ڈرا کر غلام بنا لیا تھا اور اب مسلمانوںکو ڈارتے رہتے ہیں کہ بھارت میں ہندو بن کے رہوں ورنہ پاکستان چلے جائو۔۔۔ کیوں! پاکستان چلے جائیں ؟جب پاکستان میں قائد اعظم کی وژن کے مطابق دو قومی نظریہ والی، مثل مدینہ فلاحی جہادی ریاست بن جائے گی تو پھر بھارت کے مسلمان بھارت میں ایک اور پاکستان بنائیں گے۔۔۔ مقتدر حلقوںاٹھو اور بھارت کی بار دھمکیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوتے ہوئے اعلان کر دوکہ اگر ہم نہیں تو پھر تم بھی نہیں۔ افغانستان میں سویٹ رشیا کو شکست سے دو چار کرنے والے،مقبوضہ کشمیر میں بھارت کوناکوں چنے چبھانے والے اور مشرقی پاکستان میں فوج سے سے آگے آگے بڑھ کی جنگ لڑنے والے البدر اور الشمس کے جانشین ،جماعت اسلامی کے مجاہد بھی موجود ہے۔ پاکستان کے اہل اقتدار اگر تم نہیں ایسا نہ کرو گے تو تمھارا اقتدار بھی نہیں رہے گا۔کیونکہ کہ تمھاری بربادی کا فیصلہ تو بھارت نے توعلانیہ کیا ہوا ہے۔ وہ تمھیں نیست و نبود کر دے گا۔ اور تم آلو پیاز کی تجارت میں لگے ہوئے ہو۔اُٹھو ایٹمی میزائل طاقت پاکستان کو مثل مدینہ فلاحی جہادی ریاست بنا ئو۔ اور تحریک پاکستان جیسی تحریک دوبارہ برپاہ کرو۔تمھاری بقاہ تمھارے ہاتھ میں ہے۔پھر پاکستان میں کوئی دوسراسانحہ مشرقی پاکستان نہیں ہو سکے گا۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین۔