تحریر : کوثر ناز اقبال تیرے نام پر جو پارک بنا تھا اس پارک میں شاہیں تیرے بے جان پڑے ہیں آہ دکھ کی ایک اور گھڑی افسوس کا ایک اور مقام ہمارے معصوم ننھے نازک پھولوں پر ایک اور سفاکانہ حملہ۔۔ لاہور کے اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے پر شاید اب میں افسوس کا کوئی لفظ نہیں رکھتی کہ افسوس حد سے سوا ہی شدیدکرب محسوس کرتے ہوئے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ آخر کب تک اس ارضِ پاک کی مٹی اپنے معصوم پھولوں کو خون میں نہاتا دیکھنے کا بوجھ اٹھاتی رہے گی اور کب تک ہر ہر ماں کو اپنے لختِ جگرسے دور ہونا پڑے گا۔
ہم کب تک ایسے ہی لفظوں کے افسوس لواحقین کے سپرد کرتے رہیں گیااور کب تک یہ سفاک دل رکھنے والے خود کو انساں و مسلماں کہنے والے حیوان ہمارے گلشن اجاڑنے کی ہمت کرتے رہیں گے اسے آخر کہیں تو ختم ہونا ہی چاہیئے نہ جانے ہم کب تک ہمارے قائڈ کی روح کو شرمندہ کرتے ر ہیں گے جانے کب ہمیں امن نصیب ہوگا کب ہم آزادی سے سانس لے پائیں گے۔۔۔ کیونکہ جہاں ہماری اور ہمارے عزیزوں کی جانوں کا لہوبہنے میں کچھ لمحے لگتے ہیں اسے تو آزادی کہنا بھی سینے پر شدید ضرب دینے کے مترداف ہے۔
میں یہاں کسی سیاستدان کی طرح کوئی جھوٹا افسوس نہیں کروں گی کیونکہ میں لاہور کے معصوم باسیوں کے لواحقین کا سا کرب محسوس کرسکتی ہوں میں اپنے قریب کھڑے اپنے بھائی کے بیٹے کو دیکھ رہی ہوں تو میرا دل ہول رہا ہے وہ کس قدر قیمتی ہے یہی سوچ کر میری آنکھیں بھر آئیں ہیں مجھے اپنے وطن کے ہر معصوم پھول سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ اپنے گھر کے بچوں سے۔۔ جو سانحہ لاہور کے باسیوں پر گذرا ہے دل اس پر کرب کا نمونہ بنا بیٹھا ہے نہ ہی میں یہاں کسی کو کوئی الزام دوں گی کیونکہ دھماکہ کرنے والے بے دین ہیں سفاک ہیں سینے میں پتھر لیئے گھومتے ہیں یہ کبھی بچے تھے ہی نہیں آسمان سے ایسے ہی اترے تھے انکے ذہنوں میں سوائے بارود کے اور کچھ نہیں ہے
Protocol
سیاستدانوں کی تو بات ہی کیا کروں انہیں اپنے پروٹوکولز سے فرصت ملے تو اپنی عوام کی خبر لیں۔ میڈیا پر بیان دینے تو ایسے آتے ہیں جیسے ولیمے کی دعوت انہیں ہی ملی تھی بس۔۔ جبکہ حکومتی ذمہ داریاں نبھانے کی اہلیت صفر رکھتے ہیںتف ہے ان نام نہاد سوکالڈ حکمرانوں پر، ویسے دیکھا جائے تو ان حکمرانوں کا بھی کوئی قصور نہیںکیونکہ انکے بچے اس طرح کے دھماکوں کی نظر نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہم سب حکمت عملیاں دیکھتے انکی سو قصور سارا ماؤں کا ہے جو اپنے اپنے بچوں کو پڑھنے کو اسکول بھیجتی ہیں یا تفریحی مقامات پر لے کر جاتی ہیں کیونکہ اگر ماؤں کے بس میں ہو تو اپنے بچوں کو موت کے منہ سے بھی کھینچ لائیں۔
سو کوئی اور موردالزام نہیں ہے نہ ہی سفاک درندہ صفت دھماکے کرنے والے حیوانوں سے بھی بدتر مخلوق نہ ہی بے حسی کی چادر اوڑھے سونے والے حکمران۔۔ سارا قصورصرف ماؤں کا ہے جو تدبیریں نہیں کرتی اپنی ذمہ داریاں نہیں سمجھتی جن میں اپنے جگر گوشوں سے جدائی سہنے کاحوصلہ موجود ہے آہ افسوس صد افسوس دل خون کے آنسوایک بار پھر رو رہا ہے کہ اب میرے لاہور میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔۔ گلیاں بھی لہو ہیں مرے بازار بھی لہوہیں ہائے مرے گھر کے درودیواربھی لہو ہیں۔
اے قائد میں تجھ سے شرمندہ بہت ہوں کہ جو خواب آپکی آنکھوں میں تھا آزاد وطن کا وہی قوم کی معماروں نے مسمار کر دیا ہے کہ اب ہم نہ مسلمان رہے نہ ہی انسان۔۔ آخر میں صرف یہی خدا کے حضور بے بسی سے پیش کروں گی کہ یاخدا لاہور کے معصوم باسیوں کی جدائی پر انکے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرما یاخدااس ارضِ پاک کو غلیظ و آلودہ نگاہوں سے پوشیدہ رکھ آمین ثمہ آمین۔