بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دس برس سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔ ملک میں تین حکومتیں تبدیل ہوئیں، عدلیہ کی بحالی کے لئے دو تحریکیں چلیں اور اس دوران چار وزیراعظم اس ملک کے انتظام کے ذمہ دار رہے مگر صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ یوں بھی یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اب سوگ میں آواز وہی بلند کرے گا جس کے گھر سے جنازہ اٹھے گا۔ شیعہ قتل ہو تو سنی نہیں بولتا، سنی مرے تو اہلحدیث کے گھر امن ہوتا ہے۔ اب مسیحیوں پر حملہ ہوا ہے تو اس پر احتجاج، سوگ منانے اور سیاہ پرچم اٹھانے کی ذمہ داری بھی صلیب برداروں پر ہے۔
باقی آبادی کے لوگ اپنے اپنے رہنما کے جاری کئے گئے بیانات کو ڈھال بنا کر اپنے کام سے کام رکھیں گے۔پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس میں اقلیتوں کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لیکن مسلمانوں کی یہ اکثریت اپنی اس مختصر اقلیت کی حفاظت کرنے یا اس کی ذمہ داری قبول کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اگر مختلف مذہبی نعروں کی بنیاد پر تلوار نہیں اٹھائی جاتی تو خود کش بمبار بھیج کر بے عقیدہ لوگوں کے پرخچے اڑا دئیے جاتے ہیں۔ گزشتہ روزپشاور میں کوہاٹی گیٹ پر واقعہ پاکستان چرچ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 100 سے تجاویز کر چکی ہے۔ مرنے والوں میں بچے ، خواتین ، ایک شیر خوار اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
ابھی تک اس خونریز ، شرمناک اور افسوسناک حملہ کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن ان ہاتھوں کو سب پہچانتے ہیں جو اس ملک کے ہزاروں معصوموں کے خون سے رنگین ہیں۔صدر مملکت سے لے کر عام تبصرہ کرنے والا اس واقعہ پر افسوس اور ملال کا اظہار کر رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر ، مذہبی رہنما اور سماجی کارکن بیک زبان سراپا احتجاج ہیں۔ حملہ کی مذمت کی جا رہی ہے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ چند روز یہ ہنگامہ رہے گا۔
کچھ جلوس نکالے جائیں گے اور اس کے بعد زندگی معمول پر آ جائے گی۔ عیسائیوں کو یوں بھی اس آفت پر زیادہ شور نہیں مچانا چاہئے کہ اس ملک کے حق پرست جیالے تو اپنے ہی ہم مذہب مگر فرقے اور مسلک کا فرق رکھنے والوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ اس کثیر الآبادی مسلمان ملک کا حصہ ہیں جہاں محض مسلک کی بنیاد پر شناخت کر کے لوگوں کی گردنیں اڑائی جاتی ہیں اور عبادت گاہوں کو دھماکے سے تباہ کر دیا جاتا ہے۔یہ تو ایک چرچ کے باہر بزدل خود کش بمباروں نے زمین کو لال کیا ہے۔
لیکن ان ہی بے غیرت بمباروں کے بھائی بند اس سے پہلے مساجد، امام بارگاہوں اور مزارات کو اپنے غضب کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ فرقہ ، مسلک، عقیدے اور مذہب کی اس تفریق اور اس کی بنیاد پر زندہ رہنے یا مار دینے کا حق دینے کے رجحان نے پاکستان کو بارود کے ایک ڈھیر میں بدل دیا ہے۔ جس میں کسی وقت بھی دھماکہ ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے اور مرنے والوں پر آہ کی ایک آواز ، مذمت کے دو لفظ اور بے عملی کی درجنوں فائلیں لاد کر انہیں خیر آباد کہہ دیا جاتا ہے۔
Peshawar Church Blast
صحافی برادری کا کہنا ہے کہ ابھی کوہاٹی گیٹ پر مرنے والوں کا خون بھی سڑک سے صاف نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس المناک سانحہ میں مرنے والوں کی گنتی پوری ہوئی تھی کہ اس قومی سانحہ پر گروہی سیاست کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔ کسی کو یہ بھارت کی کارستانی دکھائی دیتی ہے ، کوئی اسے امریکی سازش قرار دے رہا ہے تا کہ وزیراعظم نواز شریف کا دورہ اقوام متحدہ ناکام ہو سکے اور کوئی اسے حکومت کی ناکامی قرار دے رہا ہے۔
سیاسی رہنما اس سانحہ پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں کہ یہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی ہے یا گزشتہ پانچ برس کے دوران صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں یہ خون آشام سرکش اس قدر طاقتور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے وقت اور جگہ کا تعین کر کے معصوم انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں۔یہ طاقتور سرکش اس قدر منہ زور ہونے کے باوجود اس قدر بزدل ہیں کہ ہمیشہ چھپ کر وار کرتے ہیں اور اپنے خونی اقدامات کی ذمہ داری اسلام آباد اور واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی سازوں کے سر تھونپنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ لخت لخت ہوئی اس پاک سرزمین کے رہنما مل کر ان شیطانی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کی بجائے خود آپس میں اس سوال پر سر پھٹول کر رہے ہیں کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ایک سازش کا نتیجہ ہے تا کہ حکومت نے انتہا پسندوں کے مذاکرات کرنے کا جو ڈول ڈالا ہے وہ ناکام ہو جائے۔ نہ جانے کیوں سب کو پاکستان کی ہر آفت میں بیرونی ہاتھ ہی ملوث دکھائی دیتا ہے۔
ان میں کوئی بھی شخص اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا احتساب کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔یہ امن مذاکرات جس کا علم مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اٹھایا ہے اور ملک کی کم و بیش سب سیاسی پارٹیوں نے جس کی تائید کی ہے ایک ایسی گاڑی کی مانند ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ اس میں ڈبے بھی لگے ہیں، گارڈ اور عملہ بھی ہے مگر انجن ناپید ہے۔ نہ وہ ڈرائیونگ فورس موجود ہے جو امن کو مسلط کرنے کا حوصلہ اور بصیرت رکھتی ہو اور نہ ہی انتہا پسندی میں مصروف شر پسند ان مذاکرات کے بارے میں کسی سنجیدہ رویہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ پشاور کے قلب میں درجنوں بے گناہ انسانوں کی لاشیں ضرور اپنے ارباب بست و کشاد سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ وہ آخر ان ذمہ داروں تک کب پہنچ پائیں گے جن کے بھیجے ہوئے خود کش بمبار نے ان کی زندگیوں کو وقت سے پہلے ہی موت کی نیند سلا دیا۔ سیاسی بیان بازی کے دنگل سے فرصت پا کر قوم کے لیڈروں کو اس سوال کا جواب اپنے اپنے ضمیر کی عدالت سے پوچھنا چاہئے۔