یہ عید ویسے بھی کرونا کی وجہ سے پہلے ہی کیا کم اُداسیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے آرہی تھی کہ اِس پر سانحہ پی آئی اے ماڈل کالونی بھی رونما ہوگیا ۔جس سے پوری پاکستانی قوم ابھی تک غم سے دوچار ہے ،میتوں کی شناخت اور تدفین کا عمل یہ کالم لکھنے تک جاری ہے۔ بیشک ، جن خاندان کے پیارے اِس حادثے میں شہیدہوئے ہیں۔ اِن کے غموں کا مداوا تو نہیں کیا جاسکتاہے۔ ہاں البتہ، تحقیقاتی ادارے خداکو حاظر وناظرجان کراور مرنے کے بعد اللہ کے سامنے حاضرہونے کے خوف سے اتنا ضرور کرلیں کہ اپنی تحقیقات کو حقیقی معنوں میں صاف وشفاف بنا ئیں۔ اور شہید پائلٹ کے علاوہ زمین پر ادارتی ذمہ داری نبھانے کا حلف لینے والے زندہ مگر غیر ذمہ دارافراد کو سزائیں دلائیں ۔ اِس طرح جہاں شہداءکی ارواح کے ساتھ اِنصاف ہوگا؛تووہیں شہیداءکے لواحقین کو بھی تسکین ملے گی ۔اُنہیں یقین ہوچلے گاکہ خدانخواستہ اَب کسی بھی حادثے کے بعد شہیدکوہی ذمہ دار ٹھیراکر فائل بند نہیں کی جائے گی؛ بلکہ زمین والے کو اِس کی غیر ذمہ داری پر سزاملے گی۔
تاہم جو ہونا تھا وہ ہوگیا!! مگر کیا ہر بار کی طرح اِس مرتبہ بھی سانحے پی آئی اے کی ذمہ داری کوئی زندہ مائی کا لال قبول نہیں کرے گا؟ حسب روایت اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران خود کو اور(بقول پالیا) غلطی کے مرتکب ائیرٹریفک کنٹرولر،شعبہ انجینئرنگ سمیت دیگر کی نوکریاں بچانے کے لئے شہید پائلٹ پر سارا ملبہ ڈال کر تحقیقات کی فائل قیامت ( روز محشر) کے دن تک کے لئے بند کرکے سُکھ کا سانس لیں گے۔کیا پھرسب کچھ بھول کرخطاکاروں کے ساتھ ادارے کے معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے۔؟ خاکم بدہن پھر جب کبھی کسی زمین والے زندہ ذمہ دارکی غلطی سے کوئی نیا سانحہ رونما ہو جائے گا ۔تودوبارہ سب مل کر کسی شہید کے کاندھے کو استعمال کریں گے۔ اور حادثے کی تمام ذمہ داری اُس پر ڈال دیں گے۔
ایسا توہمارے یہاں پچھلے 71سالوں سے ہوتاآیاہے۔تب ہی تو حوادث کا ہونا معمول بن گیاہے۔ اگرپہلے کبھی عہدے کا لحاظ کئے بغیر کسی حادثے کے بعد کسی زندہ ذمہ دارکو اُس کی غلطی کا تعین کرکے کڑی سزادے دی جاتی تو ہمارے یہاں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اداروں میں کام کرنے والوں کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے حادثات کم ہوجاتے۔
لگتا ہے کہ جیسے حوادث ہماری جھولی میں زبردستی ڈال دیئے جاتے ہیں۔سرزمین پاکستان میں یہ سب کچھ اُس وقت تک ہوتارہے گا۔ جب تک کہ حقیقی معنوں میں سانحہ کے زندہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں نہیں دی جاتی ہیں۔یہ وطیرہ خاص طور پر مشاہدات میں آیا ہے اور دیکھا گیاہے کہ جب بھی پی آئی اے اور ریلوے میں حادثات ہوئے ہیں۔ ہمیشہ حوادث کی تحقیقات کرنے والی ہماری تحقیقاتی ٹیمیں پی آئی اے کے پائلٹس اور ریلوے کے انجن ڈرائیوروں کو ہی حادثے کا ذمہ دار قرار دے کرفائل کا منہ بند کردیتی ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ جیسے برسوں سے پاکستان انٹرنیشل ائیرلائن اور پاکستان ریلوے کے ہونے والے حوادث کے بعد تشکیل پانے والی تحقیقاتی ٹیمیں شہید ہونے والے پی آئی اے کے پائلٹ اور ریلوے کے شہید ہونے والے انجن ڈرائیورکو ذمہ دار قرار دینے کے لئے بنا ئی جاتی ہیں۔
اگرچہ،ذرائع کے مطابق ائیربس کی 11رکنی فرانسیسی ٹیم نے حادثے کا شکار طیارے کے ملبے، انجن، لینڈنگ گئیر، ونگز اور فلائٹ کنٹرول سسٹم کا جائزہ لیا ،رن وے L25پر رگڑ کے باعث ، پچزا کھڑنے اور،بیلی لینڈنگ سے رن وے پر پڑنے والے نشانات کو چیک کیا ،طیارہ حادثے کی جگہہ سے تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں بھی شواہد اکٹھے کئے،مزید یہ کہ ٹیم نے طیارہ ٹکرانے سے نقصان زدہ مکانات کا بھی معائنہ کیا اور ساتھ ہی طیارے کے ملبے اور متاثرین عمارتوں کی تصاویر اور ویڈیو بھی بنائیں۔اطلاع ہے کہ اِس موقع پر فرانسیسی تحقیقاتی ٹیم کے ہمراہ تحقیقات کے لئے قائم پاکستانی ٹیم ائیر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی بورڈ کے ارکان نے بھی گاہے بگاہے غیر ملکی ماہرین کو اپنی تحقیقات کے حوالے سے مفصل بریفنگ بھی دی۔
جبکہ اِس موقع پر بلا کسی حیل و حجت کے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی ٹیم نے جائے حادثے سے ملبا اکٹھا کرنے اور جگہہ دھونے پر تعجب کے ساتھ سخت برہمی کا بھی اظہار کیا ۔ایسے میں یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کون ہے اور کس کے کہنے پر سانحہ جہاز کے اصل زمینی کرداروں کو بچارہاہے؟فرانسیی ٹیم کا ملبااکٹھاکرنے اور جگہہ دھونے پر تشویش کا اظہارصاف ظاہر کررہاہے کہ جیسے سانحہ 27دسمبر2007شہادت بے نظیر بھٹوکے بعد دھماکے کی جگہہ کو دھودیاگیاتھاآج تک اصل شواہد نہیں مل سکے ہیں یوں بے نظیر شہید کے اصل قاتل بھی آزاد ہیں یکدم اسی طرح سانحہ پی آئی اے ماڈل کالونی جائے حادثے کی جگہہ کو بھی دھونے کا مقصد کہیںاصل شواہد کو چھپانا تو نہیں ہے؟