تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم ساری دنیا میں کرمس کی تیاری ہو رہی تھی ۔ اسی طرح پاکستان میں بھی کرسمس کی تیاریاں زوروشور سے چل رہیں تھی۔ مسیحی کمیونٹی کرسمس کے پروگراموں کی تیاریوں کے حوالے سے مصروف تھی۔ صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع بیت ال میمورئیل میتھوڈسٹ چرچ کے سنڈے اسکول میں بچے کرسمس کے پروگراموں کی تیاریوں میں مصروف تھے وہ اس بات سے قطئ طور پر غافل تھے کہ چند لمحوں بعد ان پر کیا قیامت صغریٰ ٹوٹنے والی ہے۔ اور پھر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ دہشت گرد جو پلان 2016 سے بنا رہے تھے اس میں کامیاب ہوگئے۔ دہشت گرد چرچ کے گارڈ سلطان مسیح کو مار کر اندر داخل ہوئے اور خود کش دھماکا کر دیا جس سے 9 مسیحی شہید ہو گئے اور 51 زخمی ہیں جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔ نقصان زیادہ ہو سکتا تھا مگر سلطان مسیح نے مرنے سے قبل چرچ کا بڑا گیٹ بند کر کے دہشتگردوں کا چرچ میں داخلہ مشکل بنا دیا تھا۔ ان دہشت گردوں کو گیٹ کُود کر آنا پڑا اس میں وقت لگا اس دوران میں پولیس نے دہشت گردوں کو چرچ کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔
اگر گارڈ سلطان مسیح چرچ کا گیٹ بند نہ کرتا تو جانی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا تھا۔ یہ کیسا گارڈ تھا کہ اس کے ہاتھ میں اسلحہ تو کیا کوئ لاٹھی بھی نہی تھی اور اس کی بینائ بھی بہت کمزور تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کا زمہ دار کون ہے؟۔ ایک بحث چل پڑی کہ پولیس نے وقت پر کاروائ کر کے دوسرے دہشت گرد کو مار دیا تھا۔ لیکن شدید فائرینگ کے باوجود بھی سلطان مسیح اگر گیٹ بند نہ کرتا تو پولیس کو تو معلوم بھی نہی تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اگر وہ گیٹ بند نہ کرتا تو ان کا اند داسخل ہونا کونسا مشکل تھا۔ اس واقعے کا پس منظر جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ جو مجھے نظر آرہا ہے اور میری تحقیق ہے وہ مجھے کہیں کسی بھی میڈیا پر نظر نہی آیا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے 2013 میں سانحہ پشاور چرچ جس میں 88 مسیحی شہید ہوئے تھے اس کے بعد پاکستان کے معروف سماجی شخصیت سیموئیل پیارا اور ان کی ٹیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ پٹیشن داخل کی تھی جس میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئ تھی کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔2014 میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جو جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تھا، ایک آرڈر جاری کیا تھا جس کے پانچویں نکات میں چاروں صوبائ حکومتوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ چرچز، مندر اور گردواروں کی حفاظت کے لئے ایک اسپیشل پولیس فورس تشکیل دے جو مکمل طور پر تربیت یافتہ ہو جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کر سکیں۔ مگر چونکہ حکومت کے لئے اقلیتوں کی جان و مال کی وقعت دو کوڑی کی ہے اس لئے انہوں نے کچھ نہ کیا۔
کوئٹہ کے اسی چرچ کو 2016 میں بھی دھمکی موصول ہوئ تھی۔ مگر کوئ قدم نہی اٹھایا گیا۔ بات یہاں ختم نہی ہوئ بلکہ 7 اکتوبر 2017 کو شاہ زمان روڈ کوئٹہ پر واقع ایک چرچ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا اور ملزمان فرار ہو گئے۔ خوش قسمتی سے اس میں جانی نقصان نہی ہوا۔ مگر یہ ایک ٹریلر تھا یہ دہشت گرد جائزہ لے رہے تھے کہ حکومت ان کے خلاف کیا اقدام کرتی ہے ۔ ہوا یہ تھا کہ 4 اکتوبر کو سپہر تین بجکر 15 منٹ پر پاسٹر انیل جانسن کو جو کہ شاہ زمان روڈ پر واقع بیت ال میموئیل میتھوڈسٹ چرچ کے پاسٹر ہیں ان کو فون پر ایک دھمکی موصول ہوئ اور ان کو کہا گیا کہ شام تک دو کروڑ روپیے کا بندوبست کر لو ورنہ تم عیسائیوں کو مار دیں گے۔ اسی طرح کی فون کال اسی چرچ کے اسسٹنٹ پاسٹر مظفر منور کو بھی موصول ہوئ۔ حیرت کی بات یہ تھی کے کال کرنے والا شخص باقائدہ اپنے نمبر سے کال کر رہا تھا اور بے خوف تھا۔
اپنا نمبر اور اپنا تعارف کروا رہا تھا۔ پاسٹر انیل نے اس سے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اتنا پیسہ کہاں سے لائیں مگر وہ دھمکیاں دے رہا تھا۔ پھر ہفتے کے روز 7 اکتوبر کوان کے چرچ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئ جانی نقصان نہی ہوا تھا۔ اس واقعہ کو پاکستان کے میڈیا نے دکھایا تھا۔اس حملے کے بعد یہ دونوں خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے زرغون آباد تھانے میں دھمکی آمیز فون اور اس کا نمبر سب کچھ پولیس کو بتایا۔ ایف آئ آر نمبر 154/17 کٹوائ۔ پاسٹر انیل جانسن نے اس دہشت گرد کی آواز بھی ریکارڈ کر لی تھی جو راقم نے بھی سُنی اور فون نمبر بھی دیکھا ہے۔ (جس کے لئے میں معروف سماجی شخصیت گُلباز فضل کا شکریہ ادا کرتا ہوں) مگر 7 اکتوبرکے واقع کے بعد بھی بات ایف آئ آر سے آگے نہی بڑھی اور پھر دہشت گردوں نے اپنا کام کر لیا۔
اگر وفاقی اور صوبائ حکومت کی ایجنسیاں 2016 کی دھمکیوں کو سنجیدہ لیکر تفتیش کرتیں یا 7 اکتوبر کے دستی بم حملے کے بعد اس دہشت گرد کو تلاش کرتیں جس کی آواز، فون نمبر تک پولیس کو دیا گیا تھا تو سانحہ کوئٹہ میں اتنا بڑا جانی نقصان نہ ہوتا۔ حکومت کی جانب امداد کا اعلان کیا گیا مگر ابھی تک کچھ نہی ملا۔ کچھ لوگ اقلیتی ارکان کو قصوروار قرار دے رہے ہیں کہ جو خاموش رہ کر حلوہ کھا رہے ہیں اور صرف فوٹو سیشن کے لئے جائے وقوع پر پہنچ جاتے ہیں اور فوٹو کے بعد پرسرار سی مسکراہٹ کے بعد نکل جاتے ہیں۔ مزہبی لیڈر بھی اب نہیں ہیں کیونکہ بشپ جان جوزف نہیں ہیں۔