کسی بھی اسلامی ریاست میں رعایا کی جان و مال کا تحفظ حاکم ِوقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔فی زمانہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کے نام پر پاکستان کی حد تک سیکورٹی کی مد میں کروڑوں روپے کا بجٹ استعمال ہو رہا ہے ملک بھر میں بہت سے ادارے عوام و خواص کی جان و مال کے تحفظ پر مامور ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں فوجی اور سویلین اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں ۔ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی کی کارروائی کے بعد قوم کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا جاتا ہے کہ ملک دشمن غیر ملکی ایجنسیاں را، موساد ،داعش اور نہ جانے کون کون سے گروپ ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔ہر واقعہ کے بعد اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے دشمن کو پہچان لیا ہے ۔۔اب یہ ہم سے بچ نہیں سکتے ۔لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ جہاں ایک طرف لوگ دہشت گردی کی بناء پر اپنے جانیں گنوارہے ہیں ، وہاں اپنے ہی محافظ بھی اپنے شہریوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ،سانحہ اورماڑا (بلوچستان) ہو، سانحہ ساہیوال ہو یا کراچی میں پولیس اہلکاروں کی گولی کا نشانہ بننے والے بچے کا واقعہ ہو ۔کسی بھی ایک واقعہ پر حکومت کے ذمہ داران کو ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔دہشت گردی کی اکثر کارروائیوں کے بعد بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب دشمن کی سازش کا نتیجہ ہے ۔دوسری طرف اپنے ہی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے واقعات پر بھی حکومتی بے حسی سوالیہ نشان ہے۔۔۔کس قدر مقام افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں اس قدر قابل افسران کی موجودگی میں ہم ان عناصر کو پکڑ ہی نہیں سکتے ۔۔بلوچستان میں ایک سازش کے تحت ہزارہ برادری کے لوگوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے ، وہاں تسلسل کے ساتھ ایسے سانحات ہو رہے ہیں ۔مگر حکومت کے پاس ان وقعات کی روک تھام کی کوئی تدبیر نہیں۔
گذشتہ روزبلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے کے علاقہ” اورماڑہ ”پر نامعلوم مسلح افراد نے ایک مسافر بس کو روک کر اس میں سوار افراد کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد 14 افراد کو بس سے نیچے اتار کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں ماردیں۔جن میں پاک بحریہ کے اہلکار بھی شامل تھے۔ قبل ازیں 12 اپریل کو ایک خودکش بم دھماکے میں ہزارہ برادری کے 20 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ بلوچستان میں ایک خاص شناخت رکھنے والے افراد کا قتل کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ۔ ایسا نظر آتا ہے کہ صوبہ کے حالات خراب کرنے کیلئے وقفہ کے بعدماضی کی طرح ایک بار پھر سے ”شناختی کارڈ” دیکھنے کے بعد خاص افراد کو ٹارگٹ بنانے کی وارداتیں شروع کر دی گئی ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس قدر بڑے سانحہ کے بعد بھی محض روایتی بیان بازی پر اکتفا کیا گیا ہے ۔کیا موجودہ حالات میں عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری نہیں ۔۔؟کیا غریب کے مقدر میں قتل ہونا ہی لکھا ہے ۔نیوزی لینڈ میں ایک سفید فام کے ہاتھوں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تقریباً50مسلمانوں کے قتل کے بعد وہاں کی خاتون وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے جس جرات اور حکمت عملی کے ساتھ مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کیا ،ان کے دکھ کو بانٹنے کی کوشش کی ،وہ اپنی جگہ ایک بے مثال اور قابل قدر کارنامہ ہے۔
وزیر اعظم نیوزی لینڈجاسنڈا آرڈرن نے وہاں کے مسلمانوں میں پیدا شدہ غم و غصہ اور اضطراب اپنی حکمت عملی اور محبت سے ٹھنڈا کر دیا ۔۔ان کے اس عمل نے یہود ونصاریٰ سے زیادہ مسلمانوں کے دلوں میںان کی قدر و منزلت بڑھا ئی ۔ اوران کا یہ کردار دنیا بھر کیلئے نمونہ عمل بن گیا ۔۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں بڑی سے بڑی دہشت گردی ہو جائے ، کہیں انسانی جانوں کا ضیاع ہو جائے تب بھی ہمارے حکمران اپنے حجروں سے باہر قدم نہیں رکھتے ۔ ہمارے حاکموں کے ارد گرد ایک ایسا خوشامدی ٹولہ ہر وقت موجود رہتا ہے کہ جووزیر اعظم کو سیکورٹی کے حوالے سے بریفنگ دے کر انہیں ایسی جگہوں پر جانے سے روک دیتا ہے ۔اور ان کا میڈیا سیل ایک روایتی بیان جاری کرکے مطمئن ہو جاتا ہے کہ صاحب ”سب اچھا ” ہے آپ بالکل محفوظ ہیں ۔۔دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیں گے ۔دہشت گردی کے اب تک کتنے ہی واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔لیکن آج تک ان کے بارے میں قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جاسکا۔۔بیسیوں کیس ”را” اور ”موساد ”کے کھاتے میں ڈال کر سردخانے میں ڈالے جا چکے ہیں ۔ان واقعات کی روشنی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ”قومی شناختی کارڈ” بھی ہمارے لئے موت کا پروانہ بن چکا ہے ۔عقیدے کی بنیاد پر انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلنا ایک گھناؤنا جرم ہے اور ایسے واقعات دنیا کے کسی ملک میں رونما نہیں ہوتے ۔یہ وبا ء بھی پاکستان میں ہی پھیلی ہوئی ہے کہ” شناختی کارڈ ”دیکھ کر لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کئے اس کے بعدمطلوبہ صرف 14بندوں کی جان لینے کا فیصلہ کیا ۔ان کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے پھر انہیں گولیاں ماری گئیں۔ اس کارروائی میں کچھ وقت تو ضرور لگا ہو گا۔۔
اتنی دیر میں کیامکران کوسٹل ہائی وے کے علاقہ” اورماڑہ ”کے ارد گرد کوئی سیکورٹی اہلکار موجود نہ تھے کہ جو ان لوگوں کی مدد کو پہنچ جاتے ۔ممکن ہے کہ ہمارے جوان اس جگہ سے بہت دور ہوں اس لئے وہ وہاں پہنچ نہ سکے ہوں ۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں سیکورٹی اہلکار و دیگر اداروں سے وابستہ افراد ہمیشہ کی طرح تاخیر سے پہنچتے ہیں ۔بہر حال کوئٹہ سبزی منڈی میںخود کش حملے میں 20 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد چند دن بعد سانحہ اورماڑہ میں 14انسانوں کا موت کی وادی میں اتر جانا حکومت کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے بے گناہوں کے قتل عام کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔ادھر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میںکہا ہے کہ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بزی ٹاپ سانحے میں بلوچ دہشتگرد تنظیم ملوث ہے جس کے ٹریننگ اور لاجسٹکس کیمپ ایران میں واقع ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 18 اپریل کو سرحد پار سے 15 دہشت گرد داخل ہوئے، دہشت گردوں نے فرنٹیئر کور کی وردی پہن رکھی تھی ، جنہوں نے بس کو روکا اورشناخت کرکے 14 پاکستانی شہید کیے، جن میں 10 جوانوں کا تعلق پاک نیوی،3 کا فضائیہ اور ایک کا کوسٹل گارڈ سے تھا۔ ان کا کہان ہے کہ بی آر آئی اے گروپ نے اس بزی ٹاپ سانحے کی ذمہ داری قبول کی جب کہ ان کیمپس کی نشاندہی بھی کرلی گئی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران ہمارا برادر ملک ہے اور ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں، ایران کو پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کردیا گیا ہے، امید ہے ایران ان دہشت گردوں کے خلا ف ایکشن لے گا، ایرانی وزیر خارجہ نے اس واقعے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے جب کہ بی آر آئی اے کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے ہیں،ہم افغان بھائیوں سے بھی ایکشن کی توقع کرتے ہیں۔ وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان نے نئی سدرن کمان تشکیل دی ہے، نئی سدرن کمان کا مرکز تربت میں قائم کیا گیا ہے، پاکستان نے اس بارڈر کو مزیدمحفوظ بنانے کے لئے 6 اقدامات کئے ہیں اور پاک ایران بارڈر پر باڑ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔
وزیر خارجہ کا موقف اپنی جگہ بجا سہی لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حالیہ واقعات بارے مکمل تحقیقات کی جائے تاکہ قوم کوحقیقی صورت حال سے آگاہ کیا جا سکے ۔ ان واقعات کو بھارت میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ماضی میں بلوچستان کے اندرونی حالات کی خرابی میں اس کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن کی صورت میں مل چکے ہیں۔ وفاقی حکومت خصوصا بلوچستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی تمام فورسز کو متحرک کریں اور صوبہ کے عوام خصوصاً ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے کہ جنہیں تعصب کی بنیاد پرڈھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ایک بات طے ہے کہ فوری طور پر ان واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا ۔لوگوں کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اس لئے ذمہ داران کو اپنی تمام تر توجہ اس جانب مرکوز رکھنا ہو گی۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com