سانحہ راولپنڈی ایک مربوط منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، علامہ ناصر عباس

سانحہ راولپنڈی ایک مربوط منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، حکومت یکطرف کارروائی اور جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہے، رانا ثناء اللہ اور چودھری نثار سمیت متعلقہ افسران کو مستعفی ہو جانا چاہیے، جسٹس معمون الرشید کا فقط ایک مسجد اور مدینہ مارکیٹ کا دورہ کرنا اور راولپنڈی میں جلائی گئی چھ امام بارگاہیں اور مساجد کو نظر انداز کرنا نے ان کی جانبداری کو ثابت کر دیا ہے، ہمیں ان کی تحقیقات پر اعتبار نہیں رہا، واقعہ کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی ینچ تشکیل دیا جائے، عزداری سید الشہداء اور میلاد کے جلوسوں پر پابندی 5 کروڑ شیعہ اور12 کروڑ سنی عوام کو قتل کرکے ہی لگائی جا
سکتی ہے۔

حکومت کالعدم تنظیموں کو نکیل ڈالے ورنہ عوام انہیں خود روکیں گے۔ایک سازش کے تحت ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ظاہر کیا جارہا ہے، دیوبند متعدل علماء اپنی صفوں سے شدت پسندوں کو نکال باہر کریں، میڈیا غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانحہ راولپنڈی میں چھپی سازش کو عوام کے سامنے لائے، جامعہ تعلیم قرآن کے ساتھ جلائی گئی دیگر مساجد اور امام بارگاہوں پر بات نہ کرنا غیرجانبدار کو ظاہر کررہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری علامہ ناصر عباس جعفری نے اسلام آباد میں امام بارگاہ اثناء عشری کے باہر منعقد کیے گئے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی،علامہ شفقت شیرازی، علامہ اقبال بہشتی، علامہ اختر حسین، علامہ اسرار نقوی اور دیگر موجود تھے۔

مجلس وحدت مسلمین کی اپیل پر ملک بھر کی طرح راولپنڈی اسلام آباد میں یوم عظمت نواسہ رسول (ص)منایا گیا اور امن کے دشمنوں کے خلاف جڑوں شہروں کی تمام مساجد و امام بارگاہوں میں خطابات دیئے گئے جبکہ اسلام آباد کی امام بارگاہ اثناء عشری کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ سانحہ راولپنڈی ایک مربوط منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے، جو کیمیکل جامعہ تعلیم قرآن اور مدینہ مارکیٹ کو جلانے کیلئے استعمال کیا گیا وہی کیمیکل راولپنڈی کی چھ امام بارگاہوں اور مساجد کو جلانے کیلئے بھی استعمال کیا گیا۔ ایک دن پہلے کالعدم جماعت کے ٹوئٹر پیج سے لوگوں کو مدرسہ میں جمعہ ہونے کی دعوت دینا اور جلوس روکنے کا پیغام دینا واضح کرتا ہے کہ کالعدم جماعت کا گروہ پہلے سے ہی پروگرام طے کرکے بیٹھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ اسی روز جامعہ تعلیم قرآن میں پانچ کالعدم جماعت کے رہنماء موجود تھے۔

پولیس سربراہ کا رمری میں سیرسپاٹے کرنا اور آر پی او کو چودھری نثار کی طرف سے رشتہ داری نبھاتے ہوئے تعینات کرنا نے ثابت کردیا کہ پنجاب بھر میں بھرتیاں میرٹ کے بجائے اقرباپروری کی بنیاد پر کی جارہی ہیں۔ وزیرداخلہ چودھری نثار اور وزیرقانون راناثناء اللہ کو واقعہ کے بعد فی الفور استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ رانا ثناء اللہ کی یکطرفہ پریس کانفرنس نے ان کی جانبدار کو ثابت کردیا اور جوڈیشل کمیشن پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی ان کی سربراہی کو ہم نہیں مانتے، ایک ایسا شخص کیسے اصل تحقیقات کو سامنے لاسکتا ہے جس کا کالعدم جماعتوں کے ساتھ رابطہ راہا ہو۔

علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ میاں نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کیلئے وزیرقانون رانا ثناء اللہ کافی ہیں۔انہوں کاکہنا تھا کہ جسٹس معمون الرشید کا فقط ایک مسجد اور مدینہ مارکیٹ کا دورہ کرنا اور راولپنڈی میں جلائی گئی چھ امام بارگاہیں اور مساجد کو نظر انداز کرنا نے ان کی جانبداری کو ثابت کردیا ہے،ہمیں ان کی تحقیقات پر اعتبار نہیں رہا،واقعہ کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی ینچ تشکیل دیا جائے ، عزداری سید الشہداء اور میلاد کے جلوسوں پر پابندی پانچ کروڑ شیعہ اور بارہ کروڑ سنی عوام کو قتل کرکے ہی لگائی جاسکتی ہے۔

حکومت کالعدم تنظیموں کو نکیل ڈالے ورنہ عوام انہیں خود روکیں گے۔ایک سازش کے تحت ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ظاہر کیا جارہا ہے،انہوں نے کہا دیوبند علماء شدت پسندوں کو اپنی صفوں سے نکالیں ورنہ ایک وقت آئے گا یہ تکفیری گروہ مولانا حسن جان اور مولانا سرفراز نعیمی کی طرح انہیں بھی نشانہ بنائیں گے۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ جی ایچ کیو، کامرہ ائیر بیس، مہران ائیر بیس، پریڈلائن مسجد ، چرچ پر حملے، مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے انہی سازشی ٹولے نے کرائے، جنہوں نے اب سانحہ راولپنڈی کرایا،ان دہشتگردوں کا ماضی وطن دشمنی سے عبارت ہے، بھارت اور افغانستان کے ایجنٹ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

علامہ ناصرعباس کا کہنا تھا کہ ملت جعفریہ کا ماضی گواہ ہے کہ سانحہ چلاس، بابوسر، سانحہ چکوال، سانحہ ڈھوک سیداں، سانحہ ڈی جی خان، سانحہ ہزارہ ٹاون ، سانحہ علمدار روڈ ، سانحہ عاشورہ، سانحہ عباس ٹاون میں ایک نہیں سینکڑوں افراد شہید ہوئے لیکن اس محب وطن اور پاکستان کے باوفابیٹوں نے ایک پتا تک نہیں توڑا، ایک ایک دن 150جنازہ اٹھائے لیکن سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان مخالف قوتوں کی سازش ہے جو یہاں ملک میں شیعہ سنی کا تصادم چاہتی ہیں۔

ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سنی تصادم نہیں ہے۔ یہ ایک تکفیری ٹولہ ہے جو ہر وقت ہر جلوس اور جلسے میں تکفیری نعرے لگاتا ہے اور مسلمانوں میں تقسیم ڈال رہا ہے۔آخر میں انہوں نے علامہ ناصر عباس جعفری نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ جب تک ایک بھی شیعہ اور ایک بھی سنی اس ملک میں موجود ہے اس وقت تک میلاد اور محرم کے جلوسوں پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی،اس موضوع پر سوچنا بھی محال ہے۔