سانحہ ساہیوال: لاہور ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی ارکان کو 4 فروری کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا

Lahore High Court

Lahore High Court

لاہور (جیوڈیسک) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے لیے 2 رکنی بینچ تشکیل دیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان کو 4 فروری کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے حکم پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب امجد جاوید سلیمی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ ‘ابھی تک کیا انویسٹی گیشن ہوئی؟’

تاہم درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ‘تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ نہیں کیے گئے’۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘آئی جی صاحب یہ بڑے ظلم کی بات ہے’۔

ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ ‘مجھے بتائیں، پولیس کو کیسے اختیار ہے کہ وہ سیدھی گولیاں چلائے’۔

آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ‘گولیاں چلانے والوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، معاملے پر جےآئی ٹی بھی بنا دی گئی ہے جبکہ سی ٹی ڈی کے افسران کو بھی معطل کیا جا چکا ہے’۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘انکوائری کتنےدن میں مکمل ہو گی، ٹائم بتا دیں’؟

آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ‘مکمل انویسٹی گیشن کے لیےکم از کم 30 دن چاہئیں’۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، تمام ڈی پی اوز کو آگاہ کر دیں’۔

جسٹس سردار محمد شمیم خان نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ ‘جوڈیشل کمیشن بنانا صوبائی حکومت کا اختیار نہیں، وفاقی حکومت کا ہے’۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ‘جوڈیشل کمیشن کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست دے دی ہے’۔

سماعت کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے معاملے کی اہمیت کے پیشِ نظر سماعت کے لیے 2 رکنی بنچ تشکیل دیتے ہوئے 4 فروری کو جے آئی ٹی ارکان کو ریکارڈ سمیت ہائیکورٹ طلب کرلیا۔

بعدازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور ان کی 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے بھی زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔