وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ویژن کا اظہار حکومت سے پہلے کہ انصاف سب کے لئے برابری کی سطح پر ہوگا اور پھر حکومت سنبھالتے ہی یہ کہہ کر عوام کے دل جیت لئے کہ ” ریاستِ مدینہ ” جیسی ریاست اسلامی جموریہ پاکستان کو بنانا چاہتا ہوں جو صرف عمران خان وزیر اعظم اسلامی جموریہ پاکستان کی خواہش ہی نہیں بلکہ ہر وہ پاکستانی جو امن انصاف کا داہی ہے اسی کی خواہش ہے خاص طور پر سچے پکے عاشقانِ رسول کے دلوں کی دھڑکن ریاست مدینہ جیسا دستور ہے۔ افسوس صد افسو س ابھی تک ریاست مدینہ جیسے اصولوں کو اپنانا تو دور ریاست مدینہ جیسے اصولوں کی خوشبو بھی میسر نہیں ! آج وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے صوبائی وزراء سے سخت سرزش اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو زمہ دارعہدوں پر بیٹھ کر بغیر تحقیقات بیان بازی” سانحہ ساہیوال پر جاری کر رہے تھے۔ گزشتہ روز سانحہ ساہیوال بقول دانشوروں اور صاحب بصیرت کے ” جہاں ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی وہاں دہشت گردی کے خلاف سرگرم سی ٹی ڈی اور پولیس کے کردار کے آگے بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا اور ابھی تک ان سوالات پر نہ حکومت اور نہ ادارے عوام کو مطمئن کر سکے ہیں۔ جیسا کہ میڈیا میں دیکھایا گیا ہے کہ شادی کی تقریب پر جانے والوں کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔
انسداد دہشت گردی کے ذمہ دار وں کے پاس براہ راست فائرنگ کا آپشن موجود ہوتا ہے اور قانون انہیں اس حوالے سے تحفظ دیتا ہے۔؟ سیاسی اور عوامی سطح پر پریشان کن صورتحال سی ٹی ڈی اور امن و امان کے دیگر اداروں کے بدلتے موقف سے پیدا ہوئی۔ ایسا کیونکر ہوا حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے ساتھ متاثرہ بچوں کی دیکھ بھال کا ذمہ ریاست کی جانب سے لینے کا اعلان تو کیا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا لائحہ عمل اور اقدامات کرنے پر یقین رکھتی ہے کہ مستقبل میں ایسے کسی اندوہناک واقعہ کا امکان نہ رہے اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند ہو۔
یقیناً سانحہ کا سب سے زیادہ نقصان تو یقیناً اس متاثرہ خاندان کو ہوا لیکن اس واقعہ سے پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والی کوششوں، کاوشوں کو نقصان پہنچا اور خصوصاً تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے سربراہ وزیراعظم عمران خان جو ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ معاشرے کے اندر انصاف کی عدم فراہمی معاشروں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا دیتی ہے، ایک عام تاثر یہ تھا کہ نئی حکومت آنے کے بعد جہاں ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کے اثرات واضح ہوں گے وہاں اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر کے انہیں اپنے اصل مقاصد تک محدود کر دیا جائے گا لیکن اگر صرف پولیس کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد پولیس اور انتظامیہ پر گرفت مضبوط ہونے کے بجائے یہ حکومتی دسترس سے نکلتے نظر آئے ہیں جس کی وجہ وہی سیاسی اثر و رسوخ اور خصوصاً پنجاب کی حد تک تو یہ تاثر نمایاں ہے کہ انتظامی مشینری اور پولیس اختیارات کا مرکز ایک نہ ہونے کی وجہ سے ادھر اُدھر دیکھ رہی ہیں۔
پولیس گردی کا اس وقت تک کوئی نوٹس نہیں لیتا جب تک کوئی بڑا سانحہ رونماں نہ ہو جائے ۔پولیس کو سیاست سے مکمل زاد کئیے بغیر پولیس گردی سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ دو ماہ قبل ایک دینی جماعت کے کارکنوں کو حکومت کے کہنے پر جیل کی ہوا کھانی پڑی بظاہر لگتا ہے کہ حکومت نے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے تحریک لبیک پاکستان کے سرگرم کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تو سیاست اور سرمایہ داروں نے اپنے غیر پسندیدہ لوگوں کو بھی تحریک لبیک کا کارکن ظاہر کر کے جیل بھجوا دیا۔ معاملہ یہاں تک ہی نہ رہا تھا کچھ جگہوں پر بااثر لوگوں نے ” پولیس سے مک مکا ” کر کے ایسے ایسے لوگوں کو نکلوایا ہے جہاں عرصہ بیس تیس سال سے امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ذاتی عناد کی خاطر پولیس کا دباؤ ڈال کر مساجد درس گاؤں قصبوں سے لوگوں کو نکلنا پڑااور یہ سب مقامی سیاست دانوں بلخصوص PTI کی لیڈر شپ کے علم میں ہونے کے باوجود ہو رہا ہے۔ جیسا کہ ساہیوال میں دن دہاڑے ہوا کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں، اہلکاروں کو حفاظتی تحویل میں لینے کا مقصد ان سے تحقیقات کی ابتدا نہیں بلکہ انہیں عوامی غیض و غضب سے بچانا نظر آتا ہے حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے جس طرح وزراء اس اقدام کا جواز تراشتے نظر آتے ہیں، انہیں کم از کم افسوسناک اور زیادہ سے زیادہ شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے کہ کہا گیا کہ وہ خواتین اور بچوں کو ڈھال بنا رہے تھے تو جناب آپ اس ڈھال کو ان کے خلاف استعمال کرتے اور ان کی گرفتاری یقینی بناتے تا کہ دہشت گردی کا کوئی نیٹ ورک پکڑا جاتا ان کے پاس تو گاڑی بھی ایسی نہ تھی کہ وہ دوڑ پاتے۔
دانشوروں کے مطابق حکومت کا فیصلہ نظر آ رہا ہے کہ مقصد عوام میں پیدا شدہ رد عمل کو ٹھنڈا کرنے کیلئے تحقیقاتی عمل اور خصوصاً نوٹس لینے کے رجحان کو عام کرنا ہے اور اصل مقصد ذمہ داروں کو بچانا ہوگا لیکن اگر دیکھا جائے تو وزراء اور پی ٹی آئی کے ذمہ داران کی جانب سے متعلقہ ادارے کے دفاع کا عمل خود حکومت کی بدنامی ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ حقائق سے پردہ اٹھنے دیں۔وزیر اعظم اسلامی جموریہ پاکستان عمران خان اگر روایتی تحقیقات، روایتی جے آئی ٹی، روایتی رپورٹس اور سفارشات پر انحصار ہوا تو یہ خود ملک کے مستقبل کے حوالے سے اچھا نہیں ہوگا۔ جس طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن سے آج تک سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف چھٹکارا نہیں پا سکے تو اس طرح سانحہ قادر آباد سے خود وزیراعظم عمران خان بھی خود کو بری الذمہ نہیں بنا سکیں گے۔
اگر روایتی بیان بازی سے عوام کو مطمن کر نیکی کوشش کی گئی تو عوام تو مطمن نہیں ہوگئی مگر تحریک انصاف کی حکومت تاریخی دھبہ کا نشان کبھی دھو نہیں سکے گئی۔ جناب عمران خان وزیر اعظم عمران خان مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ عدالتوں کا کام عدالتیں کریں پولیس نہ کر سکے۔ اور ہم پاکستانیوں کے لئے ایک فارمولہ ہے کہ ” لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ” فارمولہ استعمال کیا جائے تاکہ عوام کی خواہش کہ انصاف ہوتا نظر آئے پوری ہو سکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر خدائی عذاب سے کوئی نچ نہیں پائے گا۔ اس پہلے کہ دیر ہو جائے جلدی کریں۔