مُک دشمن اور دہشت گرد عناصر نے اتوار 2 نومبر کی شام واہگہ بارڈر پر خودکُش دھماکہ کرکے کئی معصوم اور نہتے اِنسانوں کو شہید کر دیا آج جہاں اِس واقعے سے بہت سے سوالات نے جنم لیاہے تو وہیں پاکستانی سرحدی علاقوں میں بھارت کی جانب سے کئی ماہ سے ہونے والی مسلسل جارحیت پر پاکستان کیطرف سے اچھا پڑوسی ہونے کے ناطے صبر و تحمل اور برداشت اور امن کی آشاکے ہونے والے پرچار اور پاکستان کی بھارت سے متعلق روارکھی گئی خارجہ پالیسی پر بھی ڈھیروں سوالات پیدا کردیئے ہیں؟
اگرچہ خبریہ بھی ہے کہ واہگہ بارڈر پر خودکش حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیموں کالعدم تحریک طالبان، جماعت الاحرار اور جُنداللہ نے قبول کی ہے اور اِس پر یہ کہ بڑی بہادری اور ڈھٹائی کے سا تھ جماعت الاحرارکے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا نمائندوں کو فون کیااور واہگہ بارڈر دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ ابتدائی طور پر ملنے والی اطلاعات میں اِن کالعدم تنظیموں میں بھی واہگہ بارڈر حملے پر نمبر اسکورنگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی جاری لڑائی نظرآتی رہی ہے….. کیوں کہ دوسری جانب پہلے واہگہ بارڈرکی ذمہ داری کالعدم جُنداللہ نے قبول کی پھر کسی اور نے یہ اطلاع دی کہ یہ اِنسانیت سوز اور شیطانی کارنامہ اِس نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کیا ہے اَب ایسا لگتا ہے کہ جیسے کالعدم تنظمیوں کی ڈوری بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہے
اَب اِنہیں بھی کوئی ایسی عالمی قوت چلارہی ہے جو اِنہیں استعمال کرکے خطے میں انارگی پھیلا کر اپنے گھناو¿نے منصوبوں کی تکمیل چاہتی ہے اور اِن میں بھی موقعہ اور مفاد پرستی اور ایک دوسرے کو نیچاد کھانے کی جنگ جاری ہے جبکہ یہ ساری باتیں اپنی جگہہ درست ہوسکتی ہیں مگر پھر بھی بعض تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کا قومی خیال یہ بھی ہے کہ واہگہ بارڈرپر پیش آئے واقعے میں تحقیقات کے دوران بھارتی ایجنسیوں کی کاروائیوں کو بھی خارج ازالمکان قرارنہیں دیا جاسکتا ہے۔
آج اِس حقیقت سے تو دنیا انکار کرہی نہیں سکتی ہے کہ پاک بھارت دونوں ممالک کے سرحدی علاقے واہگہ بارڈرپر شام کے وقت تزکُ احتشام سے پرچم اُتارنے کی یہ کوئی نئی تقریب نہیں تھی یہ سلسلہ تو دونوں پڑوسی ممالک سے متصل سرحدی علاقے میں برسوں سے ہی جاری ہے اور اِنشاءاللہ العزیز جب تک دونوں ممالک آپس میں محبتوں اور دوستیوں کو فروغ دیتے رہیں گے دونوں کے انٹرنیشنل سرحدی علاقوں میں اپنے اپنے عوام کے ساتھ گرم جوشی اورحب الوطنی کے ساتھ رسمِ پرچم اُترائی تاقیامت جاری رہے گی، مگر 2 نومبرکی شام لاہور میں واہگہ بارڈر کے پر خودکُش دھماکے نے پاکستانی سرحدی علاقے میں قیامتِ صغریٰ برپا کردی جس کے نتیجے میں تین رینجرز اہلکاروں سمیت 60 افراد شہید اور 175 سے زائدزخمی ہوئے تووہیں
بھی اطلاع ہے کہ اِس دھماکے میں شہید ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے 8 اور دوسرے کے 5اور 12 خواتین اور 7بچے بھی شامل ہیں آج اِس قومی سانحہ کے موقعے پریقینی طور ہر محب پاکستانی غم سے نڈھال ہے کیوں کہ یہ واقعہ جس جگہہ رونما ہوا ہے یہ انٹرنیشنل مقام اپنی احساسیت اورا ہمیت کے اعتبار سے پاک بھارت سرحدی علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے اِس لحاظ سے بھی واہگہ بارڈر پر رونما ہونے والا واقعہ انوکھی نوعیت کا ہے جس نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
آج پاکستانی قوم اپنے قیام کے 68 ویں سال سے گزررہی ہے، مگر افسوس ہے کہ اِس عرصے کے دوران اِسے اندراور باہر سے بے شمار خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے، یعنی یہ کہ جیسے اِسے آزادی ملنے کے بعد بھی ویسی آزادی نصیب نہیں ہوسکی ہے، اِس قوم نے جس آزادی کا خواب دیکھا تھا آج بھی پاکستانی قوم کی حالت ایسی ہے کہ جیسے یہ اپنی آزادی اور اپنی خود مختاری اور سلامتی کے حصول کے خاطر اپنے اندرونی اور بیرونی دُشمنوں سے کئی محاذوں پر جنگ لڑنے میں مصروفِ عمل ہے۔
اِدھر واہگہ بارڈر پر پیش آئے خودکش حملے اور اِس کے نتیجے میں کئی قیمتی اِنسانوں کی شہادت پر میڈیا کو جاری ایک بیان میں قوم کو تحفظ فراہم کرنے کے سب سے بڑے ذمہ دار وزارت کے ہمارے وزیرداخلہ عزت مآب محترم المقام جناب چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے واہگہ بارڈر پر ممکنہ خودکُش حملے کی وارننگ جاری کی گئی تھی لیکن اِس کے باوجود دہشت گردی کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کئے گئے اور اِسی طرح اِن کا بارباربس ایک ہی کہنا ہے کہ واہگہ بارڈر پر ہونے والے خودکُش حملے سے متعلق پہلے سے ہی حکومت پنجاب کو آگاہ کیا گیا تھا مگر اِس ابتدائی وارننگ کے باوجود خودکش حملہ آور کو روکنے کے احکامات نہ کئے جانا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے
Government of Punjab
اتنا بڑا سیکورٹی لیپس کیوں ہوا…؟ اِس کی تہہ تک جائیں گے اور اِس کی تحقیقات کی جائے گی، چلوی ہاں کچھ دیرکو مان لیتے ہیں کہ وزارتِ داخلہ نے حکومتِ پنجاب کو حملے سے متعلق پہلے وارننگ دے دی تھی مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وزارتِ داخلہ کو واہگہ بارڈرکے بارے کسی حملے سے متعلق کوئی آگاہی تھی …؟ تو اِس حملے کو روکنے کے لئے وزارتِ داخلہ نے حکومتِ پنجاب کے ساتھ کیا اور کتنی معاونت کی …؟؟؟یا اِس کا کام صرف حکومتِ پنجاب (اور متعلقہ اداروں کو ) ابتدائی وارننگ اور آگاہی، ہی دیناہوتاہے، یا اِس پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ، متعلقہ صوبوں اور اداروں سے سنجیدگی سے عمل درآمد بھی کروانا ہوتا ہے…؟؟
کیا ہماری وزارتِ داخلہ کا کام یہ ہی رہ گیا ہے کہ کسی حادثے کے بعد اپنے میڈیائی بیان بھی یہ دعویٰ کرنارہ گیا ہے کہ ہم نے تو ابتدائی وارننگ جاری کردی تھی ہماری دی گئی آگاہی پر متاثرہ صوبائی حکومت یا اداروں نے کان کیوں نہ دھرا؟
آج اِس پر قوم یہ سمجھتی ہے کہ اگر وفاقی وزارتِ داخلہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں سنجیدہ ہوتی ..؟تو لامحالہ حکومتِ پنجاب بھی سنجیدگی سے کچھ کرتی ..؟آج جہاں واہگہ بارڈر پر سیکورٹی لیپس کی ذمہ دار حکومتِ پنجاب ہے تو وہیں وزارتِ داخلہ بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے، اِس نے اپنی وارننگ اور آگاہی پر حکومتِ پنجاب پر سختی سے عملدرآمد کیوں نہیں کروایا..؟ قوم حکمرانِ الوقت اور تحقیقات کرنے اور اِنصاف فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان سے اُمید رکھتی ہے کہ واہگہ بارڈر حملے کی تحقیقات میں وزارتِ داخلہ کو بھی شاملِ کیا جائے۔ اور واہگہ بارڈر دھماکے کو قومی سانحہ قراردے کر حکومت اور مسلح افواج دہشت گردوں اور مُلک دُشمن عناصر کے خلاف آپریشن کا دائرہ سارے مُلک میں پھیلا دہشت گردوں اور مُلک دُشمن عناصر کا قلع قمع کرے اِس پر ساری پاکستانی قوم حکومت اور اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہوگی
جب مُلک اور اِس کی خودمختاری اور سا لمیت برقراررہے گی تو حکمرانوں کی حکمرانی اور سیاستدانوں کی سیاست اور مُلکی معیشت اور اقتصادیات بھی جاری رہیں گی مگر یہ سب تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ہم اور ہمارے حکمران مل کر اپنے اندراور باہر(سرحدوں کے اُس پار)کے دُشمنوں کو پہنچانیں اوراپنی مسلح افواج کے ساتھ سب مل کراپنے دیس کو اِن دُشمن سے پاک کریں۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم فون نمبر: 03312233463 azamazimazam@gmail.com