ریلوے کو محفوظ ترین سفر سمجھا جاتا تھا لیکن ریلوے پر رواں برس بار بار حملوں سے یہ سفر بھی غیر محفوظ ہو گیا۔ پاکستان ریلویز پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر آمدورفت کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے۔رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ جولائی تا فروری 2013ـ14ء کے دوران پاکستان ریلوے کی آمدنی میں 39فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں رواں مالی سال کے دوران 4ارب 50کروڑ روپے کا زائد ریونیو حاصل کیا گیا ہے۔ پاکستان ریلوے کی رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں کے دوران ادارے کی آمدن 15ارب 90کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی عرصہ کے دوران پاکستان ریلوے کو 11ارب 40کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوا تھا۔ پاکستان ریلوے مسافر گاڑیوں کی آمد و رفت کے شیڈول کی بہتری اور نئی مال بردار گاڑیاں چلا کر اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے نئے انجنوں کی خریداری اور پرانے انجنوں کی بحالی کے پروگرام پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ مسافروں کو سستی سفری اور مال برداری کی سہولیات فراہم کی جا سکیں لیکن ریلوے پر بار بار کے حملوں سے مسافروں میں خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔بلوچستان سبی ریلوے سٹیشن پر کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس میں دھماکے کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 17 مسافر جاں بحق اور 40 زخمی ہو گئے۔
کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس دوپہر سوا ایک بجے سبی ریلوے جنکشن پہنچی جہاں اس کا آدھے گھنٹے کا سٹاپ تھا۔ بیشتر مرد مسافر ٹرین سے اترے ہوئے تھے جبکہ خواتین اور بچے بوگیوں میں ہی بیٹھے تھے کہ اچانک ٹرین کی بوگی نمبر 9 میں خوفناک دھماکہ ہو گیا اور پھر ہر طرف قیامت صغریٰ برپا ہو گئی، خواتین اور بچوں کی چیخ وپکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی اور ایک بوگی مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گئی جبکہ آگ نے تین دیگر بوگیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ بوگی میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ بیشتر مسافروں کو اترنے کی مہلت ہی نہ مل سکی اور وہ بری طرح جھلس گئے۔
دھماکے کے نتیجے میں 17 مسافر جاں بحق اور 40زخمی ہوگئے۔جاں بحق ہونے والوں میں 8مرد ،4 خواتین اور 4 بچے شامل ہیں۔ آگ کے باعث کئی مسافر زندہ جل گئے جن میں ہندو برادری کے 8افراد بھی شامل ہیں جو ہسپتال عیادت کیلئے جا رہے تھے جبکہ ریلوے کے دو ملازم بھی جاں بحق ہوئے۔ امدادی کارکنوں نے ٹرین میں پھنسے ہوئے مسافروں کو انتہائی مشکل سے نکالا۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے دھماکے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی خضدار میں سکیورٹی اداروں کے آپریشن کا ردعمل ہو سکتی ہے۔ خواتین کی چیکنگ کا نظام نہیں تھا،ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی خاتون ملوث ہو۔ بندوق کے ذریعے بات منوانے کادور گزر گیا۔
احساس محرومی کے دعویدار وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کریں اور امن کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ وفاقی وزیر ریلوے نے سبی میں ٹرین دھماکے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے 5،5اور زخمیوں کے لیے 2،2لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔آئی جی ریلوے پولیس سید ابن حسین نے ڈی آئی جی ریلوے پولیس منیر احمد چشتی کی سربراہی میں5 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ کالعدم یونا ئیٹڈ بلوچ آرمی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
ترجمان تنظیم مرید بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی ایف سی کی تربت اور خضدار میں کارروائیوں کا ردعمل ہے۔انہوں نے پاکستانی عوام کو متنبہ کیا کہ فی الحال ٹرین کے سفر سے گریز کریں کیونکہ ایف سی کی جانب سے ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں وہ دوبارہ ٹرینوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اسی برس صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل میں 16 فروری کو ایک بم دھماکے کے نتیجے میں پشاور جانے والی خوشحال خان خٹک ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں۔ اس واقعے میں چار بچوں سمیت چھ افراد جاں بحق اور کم از کم 35 زخمی ہوئے۔عسکریت پسندوں نے صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کے علاقے عمر کوٹ میں 17 جنوری کو ایک اور خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں اس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں۔
Railways Blast
اس ٹرین میں تقریباً 4 سو مسافر سوار تھے۔ دھماکے کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق اور 65 زخمی ہو گئے تھے۔بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں نے 21 فروری کو ایک اور حملے کو روکتے ہوئے 10 کلو گرام وزنی ایک بم کو ناکارہ بنایا جو کہ صوبہ پنجاب کے علاقے کوٹ مٹھن کے نزدیک ریلوے کی پٹڑی پر نصب تھا۔ اس بم کے ذریعے ایک اور خوشحال خان خٹک ایکسپریس ٹرین کو نشانہ بنانا مقصود تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردوںنے 2013 میں پاکستان ریلوے پر 18 حملے کیے جن میں 16 افراد جاں بحق اور 68 زخمی ہوئے۔ 2012 میں انہوں نے پاکستان ریلوے پر 30 بار حملہ کیا تھا۔ اور 2011 میں اس طرح کے 37 حملے ہوئے تھے۔پاکستان ریلوے عوام کو تسلی بخش تحفظ کی فراہمی اور دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں مزید کمی لانے پر کاربند ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے ریلوے پولیس میں 600اہلکار بھرتی کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی تربیت کے بعد متعلقہ ڈویڑنز کو یہ نئے پولیس اہلکار دیے جائیں گے جو مسافر ٹرینوں اور پلیٹ فارمز پر ڈیوٹی انجام دیں گے۔
ریلوے پولیس کے پاس کم نفری، ٹرانسپورٹ، بم ڈسپوزل سکواڈ، وائرلیس سیٹ واک تھرو گیٹ، میٹل ڈیٹکٹر سمیت جدید آلات کی کمی مسافروں کیلئے خطرہ ہے۔ ٹرینوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی روک تھام اور ملک بھر کے ریلوے سٹیشنوں کی فول پروف سکیورٹی کیلئے ریلوے پولیس حکومت اور وزارت ریلوے کا منہ تک رہی ہے۔ سالانہ کروڑوں مسافروں، قیمتی سامان اور اربوں روپے کے اثاثوں کی سکیورٹی کی ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس نے درپیش مسائل کے حوالے سے وزارت ریلوے کو آگاہ کیا ہے کہ فول پروف سکیورٹی انتظامات ممکن بنانے کیلئے795اہلکاروں کی مزید نفری درکار ہے جس میں سے 650کانسٹیبل اور 15ڈرائیور شامل ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ ریلوے پولیس کے پاس بم ڈسپوزل اہلکاروں کی تعداد 130ہے جبکہ ضرورت 384 افراد کے سٹاف کی ہے ریلوے پولیس کے ڈی ایس پیز کے پاس موجود گاڑیوں کی تعداد 14ہیں جن میں 95/96 ماڈل اور 2003/04 ماڈل کی گاڑیاں شامل ہیں جبکہ مزید 16گاڑیوں کی ضرورت ہے گشت کیلئے موجودہ پک اپ ڈالوں کی تعداد 18 ہے جبکہ موثر گشت کیلئے مزید 50گاڑیاں درکار ہیں ریلوے پولیس کے پاس موٹرسائیکل کی تعداد 53ہے
جبکہ مزید 100 موٹر سائیکلیں درکار ہیں۔ فوری نفری کی فراہمی کیلئے ہر ڈویڑن میں پولیس وین درکار ہے بروقت پولیس اہلکاروں سے رابطہ کیلئے 55 وائرلیس سیٹ اور15سو بیٹریاں درکار ہیں۔ ملک کے اہم سٹیشنوں پر مسافروں کے سامان کی مکمل چیکنگ کیلئے 10سیکننگ مشینیں، مسافروں کی چیکنگ کیلئے400میٹیل ڈیٹکٹر، 100واک تھروگیٹ، ٹریک کی چیکنگ اور بیرونی سرنگوں کی چیکنگ کیلئے10مائن ڈیٹکٹر، 30 ایکسپلوسیو ڈیٹکٹر، کسی بھی بم کو ناکارہ بنانے جدید آلات پر مشتمل10بم ڈسپوزل ٹول کیٹ، بم ناکارہ بنانے کیلئے اہلکاروں کیلئے10بم ڈسپوزل سوٹ، اسٹیشن پر موجود سامان کی چیکنگ کیلئے10پورٹ ایبل ایکسرے مشین، کسی بھی مشکل صورت حال کیلئے 10موبائل جیمر، دھماکہ خیز مواد کی تلاش کیلئے 200 ویچل سرچ، بم کی شدت کم کرنے اور ناکارہ بنانے کیلئے 10واٹر گن درکار ہیں۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان ریلوے ٹرین کے سفر کو ہر لحاظ سے محفوظ بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے گامسافروں کے جان ومال کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے ریلوے پولیس کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جارہا ہے
ریل کو منافع بخش اور محفوظ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ مرکزی حکومت پاکستان ریلوے کو منافع بخش ،محفوظ اور بہترین سفری معیار کا حامل ادارہ بنانے کیلئے کوشاں ہے اور اس مقصد کی تکمیل کی خاطر تمام وسائل استعمال کئے جائیں گے کرایوں میں کمی کے ساتھ ساتھ تمام سفری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ٹرینوں پر حملوں کے پیش نظر ریلوے اسٹیشن سے مکمل چیکنگ کے بعد ٹرین کو روانہ کیا جارہا ہے اور پہلے کی نسبت ٹرین کی سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ بعض ٹرینوں میں کمانڈوزبھی تعینات کئے جارہے ہیں۔