تحریر: وقار النساء سکون خوشی کی تلاش بابے نے لمبا سا سانس لیا اور کہا کا کا تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ کیا آپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے؟ بابے نے خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلاکر بولا ہاں میں نے جوانی میں یہ سیکھا تھا میں نے عرض کیا کیا آپ مجھے يہ نسخہ سکھا سکتے ہیں؟ بابے نے غور سے میری طرف دیکھا اور پوچھا تم سیکھ کر کیا کرو گے؟
ميں نے کہا میں دولتمند ہو چاؤں گا بابے نے ايک قہقہہ لگايا وہ ہنستا رہا دير تک ہنستا رہا –يہاں تک کہ اس کا دم ٹوٹ گيا اور اس کو کھانسی کا دورہ پڑ گيا –وہ کھانستے کھانسے دہرا ہو گيا اور بے حالی کے عالم ميں دير تک اپنے پاؤں پر پڑا رہا –پھر کھانستے کھانستے سيدھا ہوگيا اور کہا تم دولتمند ہو کر کيا کرو گے ؟ میں نے کہا ميں دنيا بھر کی نعمتیں خريدوں گا نعمتيں خريد کر کيا کرو گے۔
ميں خوش ہوں گا مجھےخوشی اور سکون ملے گا –اس نے تڑپ کر ميری طرف ديکھا گويا تمہيں سونا اور دولت نہيں سکون چاہيے؟ ميں خاموشی سے اس کی طرف ديکھتا رہا –اس نے مجھے جھنجھوڑا اور پوچھا کيا تم دراصل سکون اور خوشی کی تلاش ميں ہو؟
ميں اس وقت کا نوجوان تھااور دنيا کے ہر نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سے زيادہ اھميت ديتا تھا –بابے نے مجھےالجھا ديا تھا اسی لئے ميں نےاسی کيفيت ميں ہاں ميں سر ہلايا –بابے نے لمبا قہقہہ لگايا جس کا اختتام بھی کھانسی پر ہواوہ دم سنبھالتے ہوئے بولا کاکا ميں تمہيں سونے کےبجائے انسان کو بندہ بنانے کا طريقہ نہ بتا دوں ميں تمہيں دولت کے بجائے پر سکون اورخوش رہنے کا گر کيوں نہ بتا دوں۔
ميں خاموش رہا وہ بولا –انسان کی خواہشات جب تک اس کی عمر اور وجودسے لمبی رہتی ہيں وہ انسان رہتا ہے –تم اپنی خواہشوں کواپنی عمراور وجود سے چھوٹا کر لو تم خوشی بھی پاجاؤ گے اور سکون بھی –اور جب خوشی اور سکون پا جاؤ گے تو انسان سے بندہ بن جاؤ گے مجھے بابے کی بات سمجھ آگئی-بابے نے ميرے چہرے پر لکھی تشکيک پڑھ لی –وہ بولاتم قرآن مجيد ميں پڑھو اللہ تعالی نے خواہشوں ميں لتھڑے لوگوں کوانسان کہتا ہے اور اپنی محبت ميں رنگے لوگوں کو بندہ بابے نے کامران کی بارہ دری کی طرف اشارہ کر کے کہا –اس کو بنانے والا بھی انسان تھا وہ اپنی عمرسےزيادہ مضبوط عمارت بنانے کے خبط ميں مبتلا تھا وہ پوری زندگی دولت جمع کرتا رہا ليکن دولت اور امارت نے اسے خوشی نہ دی۔
Conscious
خوش تو ميں ہوں اس دولتمند کی گری پڑی بارہ دری ميں! برستی بارش ميں بے امان بيٹھ کر ميں بھی !! ميں نے بے صبری سے کہا اس نے قہقہہ لگايا اور کہا نہيں تم نہيں –جب تک تم تانبے کو سونا بنانے کا خبط پالتے رہو گے تم اس وقت تک خوشی سے دور بھٹکتے رہو گے تم اس وقت تک سکون سے دور رہو گے۔
اس کے بعد بابے نے زمين سے ايک چھوٹی ٹہنی توڑی اور رگڑ کر بولا لو ميں تمہيں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتا تا ہوں اپنی خواہشوں کواپنے قدموں سے کبھی آگے نہ نکلنے دو –جو مل گيا اس پر شکر کروجو چھن گيا اس پر افسوس نہ کرو –جو مانگ لے اسے دے دو-جو بھول جائے اسے بھول جاؤ- دنيا ميں بے سامان آئے تھے بے سامان ہی جاؤ گے –سامان جمع نہ کرو –ہجوم سے پرھيز کرو-تنہائی کو ساتھی بناؤ- مفتی ہو تب بھی فتوی جاری نہ کرو جسے خدا ڈھيل دے رہا ہو اس کا احتساب نہ کرو بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے کوئی پوچھے تو سچ بولو ورنہ خاموش رہو۔
لوگ لذت ہوتے ہيں اور دنيا کی تمام لذتوں کا انجام برا ہوتا ہے –زندگی ميں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سير پر نکل جاؤ-راستے ميں تمہيں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی دينے ميں خوشی ہے اور وصول کرنے ميں غم –دولت کو روکو گے تو تو خود بھی رک جاؤگے-چوروں ميں رہو گے چور ہو جاؤ گے سادھوؤں ميں بيٹھو گے تو اندر کا سادھو جاگ جائے گا –اللہ راضی رہيگا توجگ راضی رہيگا –وہ ناراض ہو گا تو نعمتوں سے خوشبو اڑ جائے گی –تم جب عزيزوں رشتہ داروں اولاد اور دوستوں سےجڑنے لگوتو جان لو کہ اللہ تم سے ناراض ہے –اور جب تم اپنے دل ميں دشمنوں کے لئے رحم محسوس کرنے لگو تو جان لوتمہارا خالق تم سے راضی ہے۔
Allah
ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے ميں نہيں رہتا بابے نے ايک لمبی سانس لی اس نے ميری چھتری کھول کر ميرے سر پر رکھی اور کہا –جاؤ تم پر رحمتوں کی يہ چھتری آخری سانس تک رہيگ۔ بس ايک چيز کا دھيان رکھنا کسی کو خود نہ چھوڑنا دوسرے کو فيصلہ کرنے کا موقع دينا يہ اللہ کی سنت ہے اللہ کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہيں چھوڑتا مخلوق اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اور دھيان رکھنا جو جا رہا ہو اسے جانے دينا –مگر جوواپس آرہا ہواس پراپنا دروازہ بند نہ کرنا يہ بھی اللہ کی عادت ہے اللہ واپس آنے والوں کے لئے ہميشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے تم يہ کرتے رہنا تمہارے دروازے پر ميلہ لگا رہے گا۔