صنعاء (جیوڈیسک) یمن کے سابق منحرف سابق صدر علی عبداللہ صالح تین عشروں تک ملک میں سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ عوامی احتجاج کے بعد علاقائی سیاسی قوتوں نے مل کرعلی صالح کو محفوظ راستہ دلانے میں مدد کی مگر انہوں نے سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجائے سازشی ٹولے کا ساتھ دیا اور ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ان کےقول وفعل میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ معاہدہ اور وعدہ کرکے مکر جاتے ہیں اور سمجھوتہ کرنے کے بعد اس سے انکار کردیتے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے مںحرف یمنی صدر علی صالح کی سیاسی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ موصوف ماضی وعدہ خلافیوں سے بھرپور ہے۔ وہ اپنی قوم اور عالمی برادری سے کیے وعدوں کو ایفاء نہیں کرسکے ہیں۔ وعدہ کرکےاسے توڑ دینا علی صالح کی سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے چند ایک واقعات پیش خدمت ہیں۔
اکتوبر سنہ 2011ء کو علی صالح نے سلامتی کونسل کی قرارداد 2014 کی منظوری کا خیر مقدم کیا۔ اس قرارداد میں ان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جلد از جلد خلیج تعاون کونسل کے وضع کردی سیاسی امن فارمولے پر دستخط کردیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت کرنے اور اس کے خیر مقدم کے باوجود صنعاء اور تعز میں صالح کی وفادار فوجیں نہتے شہریوں کا قتل عام کرتی رہیں۔
نومبر 2011ء کو علی صالح نے خلیجی امن فارمولے پر بادل نخواستہ دستخط تو کردیے۔ اس سمجھوتے کے تحت وہ اقتدار اپنے نائب عبد ربہ منصور ھادی کو سپرد کرنے کے پابند تھے۔ اقتدار کی منتقلی اگرچہ عوامی، علاقائی اوربین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں عمل میں آئی مگر یہ اقدام علی صالح کو کسی طور پر نہیں بھایا۔ انہوں نے نئے صدر کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے چھیڑ خوانی کی راہ اپنائی۔ یوں خلیجی ممالک کے امن معاہدے کو تار تار کر دیا۔ صرف یہی نہیں نئے صدر عبد ربہ منصور ھادی کے خلاف سازشوں کے لیے ایران نواز حوثی باغیوں سے گٹھ جوڑ کیا اور حکومت وقت کے خلاف بغاوت کر دی۔
12 جولائی 2012ء کو سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ قرارداد 2051 پر علی صالح نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا۔ ان کی زیرسرپرستی جنرل پیپلز کانگریس کے اجلاس میں بھی اس قراداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس میں منظور کردہ نکات کی حمایت کی گئی۔ اس قرارداد میں سلامتی کونسل نے یمن میں سیاسی میدان میں صدر عبد ربہ کے اقدامات کو سرہا تھا اور ساتھ ہی فوج کے شعبے میں صدر کی طرف سے کی جانے والی اہم تبدیلیوں کی بھی حمایت کی گئی تھی۔ قرارداد کی زبانی حمایت کے باوجود علی صالح عملا اس کے خلاف ڈٹے رہے۔ انہوں نے فوج کا ایک حصہ الگ کرتے ہوئے ملک میں ایک متوازی حکومت اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے ثابت کیا کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں چاہتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں انہوں نے اپنی وفادار فورسز کی مدد سے بنیادی ڈھانچے، تیس، گیس اور بجلی کی تنصیبات پر حملوں کا سلسلہ شروع کر ڈالا۔
علی صالح کی جماعت جنرل پیپلز کانگریس 18 مارچ 2013ء سے 25 جنوری 2014ءتک یمنی حکومت کا حصہ رہی مگر آخرکار علی صالح نے ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے صدر ھادی کے اقدمات کو مسترد کردیا جس کے نتیجے میں ان کی جماعت کو اقتدار سے نکال دیا گیا۔ 10 جون 2015ء کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہونے والے مذاکرات کا خیر مقدم کیا مگر ان کے مذاکراتی وفد نے اس اجلاس میں بیٹھنے سےانکار کردیا۔
7 اکتوبر 2015ء کو علی صالح کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ایک مکتوب ارسال کیا جس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کی جماعت یمن میں 14 اپریل کو منظور کردہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2216 کی حمایت کرتی ہے۔ اس قرارداد میں باغی قوتوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ہتھیار پھینک دیں گے اور سیاسی بحران کے حل کے لیے مل بیٹھ کر مسائل حل کریں۔ علی صالح نے عملا اس قرارداد کو بھی نظر انداز کیا اور بار بار کے مذاکرات کے دوران علی صالح کی ہٹ دھرمی سے ثابت ہوا کہ وہ کسی بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتے۔
رواں سال اپریل میں علی صالح اور ان کے حامیوں کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مندوب کی طرف سے یمن میں جنگ بندی کی مساعی کا خیر مقدم کیا مگر جنگ بندی کے باوجود علی صالح اور حوثی باغیوں کی طرف سے شہریوں پر حملوں کا سلسلہ بدستورجاری رہا۔
حال ہی میں علی صالح نے ایک بار پھر یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ بغاوت چھوڑ کر حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔