واشنگٹن (جیوڈیسک) سان فرانسسکو میں قائم ’نویں سرکٹ کورٹ آف اپیلز‘ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان اکثریتی ملکوں کے تارکینِ وطن پر پابندی کے حکم نامے پر ماتحت عدالت کی عبوری معطلی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا ہے۔
تین ارکان پر مشتمل اپیلز عدالت نے اس ہفتے کے اوائل میں اس معاملے پر زبانی دلائل سنے تھے اور جمعرات کی شام گئے اپنا فیصلہ سنایا۔
متوقع طور پر اب امریکی عدالتِ عظمی مقدمے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ گذشتہ ہفتے، امریکی ضلعی عدالت کے جج، جیمز روبرٹ نے ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے پر عبوری حکمِ امتناع جاری کیا تھا۔
اِس پر صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں برہمی کا اظہار کیا کرتے ہوئے انھیں ’’خودساختہ جج‘‘ قرار دیا تھا، جس نے بقول اُن کے ’’بیکار‘‘ فیصلہ دیا ہے، جس کی نتیجے میں، ’’بہت سارے خراب اور خطرناک افراد کو ملک میں داخل ہونے کی‘‘ اجازت ہوگی۔
منگل کے روز اپیلز عدالت کی سماعت کے دوران ججوں کے سہ رکنی پینل نے محکمہ انصاف کے ایک وکیل اور ایک اٹارنی کے علاوہ واشنگٹن اور مِنی سوٹا کی ریاستوں کے ایک نمائندہ اٹارنی کے دلائل سنے تھے جنھوں نے پابندی اٹھانے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
امریکی اٹارنی آگسٹ فلنجے نے دلیل دی تھی کہ ٹرمپ کا انتظامی حکم نامہ کانگریس اور آئین میں دیے گئے اختیارات کے عین مطابق ہے۔ تاہم واشنگٹن کی ریاست کے سولیسٹر، نوحا پرسیل نے کہا تھا کہ مکمل عدالتی جائزہ لیے بغیر اگر پابندی ہٹائی جاتی ہے تو ملک پھر سے ’’انتشار کے حوالے‘‘ ہو جائے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پابندی کی وجہ سے خاندان بٹ گئے ہیں، بیرون ملک طلبہ پھنس کر رہ گئے ہیں، اور لوگوں کے ذہنوں میں شبہات نے جنم لیا ہے آیا وہ سفر کر سکتے ہیں، چونکہ غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ملک واپس نہ آ سکیں۔
منگل کو محکمہ انصاف کے وکلا نے نویں سرکٹ عدالت میں اپیل دائر کی تھی، اس التجا کے ساتھ کہ صدر کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ امریکہ میں لوگوں کے داخلے کو محدود کر سکتے ہیں، اور یہ کہ عدالتیں ان کے فیصلے کو الٹ نہیں سکتیں، جو اس دانش پر مبنی ہے کہ ایسا اقدام نہ کرنے کی صورت میں دہشت گردی کو نہیں روکا جا سکتا۔
ریاستوں نے استدعا کی تھی کہ ٹرمپ کی لگائی گئی پابندی سے افراد، کاروباری اداروں اور یونیورسٹیوں کے مفاد کو نقصان پہنچا ہے۔ درخواست میں انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ کے اُس عہد کا حوالہ دیا گیا تھا کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیں گے۔ انھوں نے دلیل دی کہ یہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کا داخلہ روکنے کے مترادف اقدام ہو گا، جو آئین سے متصادم ہے۔
منگل کے روز ٹیلی فون لائن کی معرفت دیے گئے دلائل میں دونوں فریق کو سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیلی فون پر دلائل غیر معمولی قدم تھا، جسے کیبل نیٹ ورکس پر براہِ راست نشر کیا گیا، جب کہ اخباری ویب سائٹس اور سماجی میڈیا نے اِس کی تشہیر کی۔ اس کے باعث، لوگوں کی بڑی تعداد نے سماعت کی کارروائی سنی۔
ججوں نے انتظامیہ کا یہ دعوی مسترد کر دیا کہ پابندی کا محرک دہشت گردی کا ڈر ہے۔ تاہم، انھوں نے ریاستوں کی جانب سے پیش کردہ اس دلیل کو بھی چیلنج کیا کہ اس اقدام کا مقصد مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے۔
جج رچرڈ کلفٹن، جن کو جارج ڈبلیو بش نے مقرر کیا تھا، ریاستِ واشنگٹن اور مِنی سوٹا کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی سے سوال کیا ’’مجھے یہ سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ آخر ہم مذہبی معاملات کو کیوں اٹھاتے ہیں، جب کہ، درحقیقت، مسلمانوں کی ایک وسیع اکثریت، اس سے اثرانداز نہیں ہوگی‘‘۔
جج نے اپنے اعداد پیش کرتے ہوئے بتایا کہ حکم نامے کے نتیجے میں دنیا کے صرف 15 فی صد مسلمان متاثر ہو سکتے ہیں۔
جج مشیل فرائڈ لینڈ کو صدر براک اوباما نے تعینات کیا تھا۔ انھوں نے محکمہ انصاف کے اٹارنی سے پوچھا ’’کیا حکومت کے پاس کوئی ایسا ثبوت ہے جس کی رو سے ان ملکوں کو دہشت گردی سے منسلک کیا گیا؟‘‘۔
ماتحت عدالت کے جج نے عبوری امتناع کے ذریعے پابندی پر روک لگائی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ ریاستیں یہ مقدمہ جیت سکتی ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ پابندی عائد کرنے سے اُن کے مکینوں کا سفر محدود ہوجائے گا، اُن کی سرکاری یونیورسٹیاں متاثر ہوں گی، اور اُن کے ٹیکس کے اہداف متاثر ہوں گے۔ روبرٹ نے انتظامی حکم نامے کو امتناع میں رکھا جب تک کہ قانونی چارہ جوئی پر عدالتیں اپنا فیصلہ نہیں دے دیتیں۔