تحریر: رشید احمد نعیم پیارے بچو! آپ نے سنا ہو گا کہ نقل کے لیے عقل ضروری ہے آج ہم آپ کو ایک ایسی کہانی سناتے ہیں جس سے آپ کو معلوم ہوکہ عقل کا استعمال کیے بغیر نقل کی جائے تو نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ ایک تھا بادشاہ ۔بہت نیک دل۔ شفیق اور حلیم۔ انصاف پسند اور اپنی رعایا کی خدمت کے جذبات سے سرشار۔اس کے دورِحکومت میںہر شخص خوش حال اور مطئمن تھا۔
ایک بار بادشاہ جیل کا معائنہ کرنے گیا۔اور قیدیوں سے باتیں کیں۔اس نے باری باری ان سے ان کے حالات معلوم کیے۔بادشاہ نے پہلے قیدی سے پوچھا ”تمہیں کس جرم میں سزا ہوئی؟”قیدی نے جواب دیا” مُجھے آپ کے سپاہی چوری کے الزام میں پکڑ کر لائے تھے لیکن میں بے قصور ہوں”بادشاہ نے دوسرے قیدی سے بھی یہی سوال کیا۔اس نے بھی اپنے آپ کو بے قصور بتایا۔غرض بادشاہ ہر قیدی سے یہی سوال پوچھتا رہا اور ہر قیدی نے خود کو بے قصور بتایا۔ بادشاہ ہر ایک کی باتیں سن کر مسکراتا رہا۔اچانک بادشاہ کی نظر ایک قیدی پر پڑی جو ایک جگہ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
King and Prisoner
بادشاہ نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ” اس قیدی کو ہمارے حضور پیش کیا جائے”جب قیدی کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بادشاہ نے اس قیدی سے پوچھاکہ”تم منہ کیوں چھپائے بیٹھے ہو؟” قیدی نے جواب دیا”میں بے حد گنا ہ گار ہوں میرے گناہوں نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ اپنا منہ دکھا سکوں۔ میں ایک اچھا انسان تھا۔ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا تھا۔ایک بار میرے دل میں شیطان نے گھر کر لیا۔اور میں نے ایک آدمی کے پیسے چرا لیے۔اس کے نتیجے میں جیل بھیج دیا گیا” بادشاہ نے یہ سن کر سوچا کہ” یہاں ہر کوئی اپنے آپ کو بے قصور بتا رہا ہے۔ان میں سب بے قصور نہیں ہوں گے۔ اگر ان کو رہا کیا گیا تو یہ ملک میں بدامنی پھیلائیں گے اس لیے ان کو کسی صورت رہا نہیں کیا جا سکتا۔جب کہ اس آدمی نے اپنے آپ کو گناہگار بتایا ہے اوراپنے کئے پہ شرمندہ بھی ہے۔اگر میں نے اس کو رہا نہ کیا تو یہ دوبارہ اسی راستے پر آ جائے گا ” یہ سوچ کر بادشاہ نے اس قیدی کی رہائی کی حکم دے دیا۔
بادشاہ جیل سے چلاگیا اور سب باتیں بھول گیا۔بادشاہ کچھ عرصے بعد پھر جیل کا معائنہ کرنے گیااور سب قیدیوں سے باتیں کیں مگراس بار قیدیوں نے گزشتہ دورے پر ہونے والے واقعات اور رہائی پانے والے قیدی کی باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اپنے گناہوں کی تفصیل بڑے مزے لے لے کر بیان کی اور دل ہی دل بہت خوش ہو رہے تھے کہ ابھی بادشاہ سلامت رہائی کے احکامات صادر فرمائیں گے مگر کسی نے سچ کہا ہے کہ نقل کے لیے عقل چاہیے مگر قیدیوں نے صرف رہائی پانے والے قیدی کی باتوں کو مدِنظر رکھااور اسی کی نقالی کی جس کا بادشاہ سلامت پر منفی اثر پڑا اور جب بادشاہ جانے لگا تو اس نے سپاہیوں کوحکم دیا کہ” یہ سب قیدی گناہ گار ہیں۔اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑے مزے سے ان کی تفصیل بیان کر رہے ہیں۔لگتا ہے ان پر سزا کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ان سب قیدیوں کی سزا کو بڑھا دیا جائے۔”بادشاہ تو حکم دے کر چلا گیا مگر قیدی ایک دوسرے کو ہکا بکا دیکھتے ہوے دل میں سوچنے لگے کہ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ” نقل کے لیے عقل چاہیے”۔