سفرِ حج (اوّل)

Hajj

Hajj

تحریر: میر افسر امان
الحمد اللہ ٢ ستمبر کو کراچی شہر سے سفرِ حج شروع ہوا۔ اس سے قبل ادارہ نورِ حق میں عازمین حج کی تربیت کے لیے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی تربیت کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ایک دن عمرہ اور حج کی ادائیگی کے قواعد کی تربیت دی گئی اور کچھ دن بعد ایک ویڈیو پروگرام دکھایا گیا جس سے سفرِ حج کے متعلق کافی مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے حج ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ہم نے بھی گورنمنٹ اسکیم کے تحت پیسے مسلم کمرشل بنک میں جمع کروائے تھے۔ گورنمنٹ کی پہلے آئو پہلے پائواسکیم کے تحت ہمارا نام نکلنے کی اطلاع اسلام آباد حج ڈیپارٹمنٹ نے ایک خط کے ذریعے دی۔

جماعت اسلامی شعبہ حج ادارہ نور حق نے دو حج گروپس ترتیب دیے تھے ۔ ٢٥ مرد و خواتین پر مشتمل عازمینِ حج کا ہمارا گروپ بنایا گیا تھا جس میں ہم باپ بیٹا شریک ہیں۔ اس گروپ کی راہنمائی کے لیے گروپ لیڈر محترم سید طارق محفوظ کو بنایا گیا۔برصغیر پا ک و ہندکی مختلف قومیتوںکے باغ کے پھولوں کا یہ گلدستہ ہے۔ اس گلدستے کا تعلق بہار شریف، کشمیر، حیدر آباد دکن،جیسور، جالندھر، پنجاب، خیبرپُختونخواہ، بلند شہر(یوپی) دہلی، بدایوں(یو پی)، لکھنو، بلوچستان سے ہے ۔ان کے آبائو اجداد نے قاعد اعظم کی آواز، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ، لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان کے تاریخی نعرے پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آبائو اجداد کی قبریں، اپنی تہذیب تمدن، اپنی جائدادیں، اپنے گلی کوچے، اپنے لہلہا تی کھیتیاں اور سب کچھ چھوڑ کر مثل مدینہ ریاست پاکستان ہجرت کر کے آئے اور قومِ رسولۖ ہاشمی میں ضم ہو گئے۔

بقول علامہ اقبال:۔اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولۖ ِہاشمی۔

یہاں پاکستان کے رہنے والوں کے آبائو اجداد نے مدینہ کے انصار کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کو خوش آمدید کہا مہاجر اورانصار آپس میں یک جان ہو گئے۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جس نام پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا اسلام کا وہ بابرکت نظام ابھی تک پاکستان میں رائج نہ ہو سکا۔ بحر حال یہ گلدستہ اللہ کے گھر اللہ کا مہمان بننے عازم حج اور روضہِ رسولۖ اللہ پر حاضری کے لیے چل پڑا۔ گروپ کی ہدایت کے مطابق سفرِ حج کے لیے نماز ظہر کے بعد گھر سے ہی احرام باندھ لیا تھا۔سرڈھانک کر دو رکعت نفل نماز ادا کی۔ عمرہ کی نیت جہاز پر سوار ہونے کے بعد میقات پہنچنے پر کی گئی جس کا جہاز میں اعلان کیا گیا تھا۔”اے اللہ میں آپ کی رضا کے لیے عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں،آپ اسے میرے لیے آسان فرما دیجئے اور قبول فر ما لیجئے”نیت کرتے ہی بلند آواز سے تین بارتلبیہ پڑھی۔” لبیک اللھم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک”میں حاضر ہوں،یا اللہ میں حاضر ہوں،میں حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں،میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے ہی لئے ہیں اور اقتدار تیرا ہی ہے تیرے اقتدار میں کوئی شریک نہیں۔ تقریباً چار گھنٹے سے زائد ہوائی سفر کے بعد جدہ ایئر پورٹ پر پی آئی اے کے جہاز نے لینڈ کیا۔ جہاز سے اُترتے ہی پہلے پاسپورٹ پر اسٹپ لگوانے کے لیے قطار بنائی گئی ۔ سعود ی عرب میں اخراجات کے لیے حسب ضرورت کرنسی کراچی حج ٹرمینل پر ہی مسلم کمرشل بنک سے تبدیل کروا لی تھی۔ وہیں پرحکومت پاکستان نے ہمارے سمیت عازمین حج کو۔ ٢٦٣٩٠ روپے بھی واپس کئے۔ حج ٹرمینل پر عازمین حج کچھ دن پہلے دو ٹیکے لگائے گئے تھے اور پولیو کی ویکسین بھی پلائی گئی تھی۔ جدہ ایئر پورٹ پہنچنے پر ایک دفعہ پھر ویکسین پلائی گئی۔

Hajj Pilgrims

Hajj Pilgrims

کراچی میں حج ٹرمینل پر ویزہ لگا پاسپورٹ بمعہ پی آئی اے کی جدہ پرواز اور ١٣ اکتوبر کوکراچی واپسی کا ٹکٹ ہمار ے حوالے کیا گیا۔ سعودی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے جدہ ایئر پورٹ پر پاسپورٹ چیک کر کے اس پر ضروری اسٹپ لگائی۔٠ ٤ سال سے کم عمر کے عازمیں حج کے فنگر پرنٹ بھی ثبت کر کے رکھ لیے گئے۔ اس کے بعد بلٹ پر ساما ن تلاش کیا سامان کے ساتھ آگے کاوئنٹر کی طرف چل پڑے۔ امیگریشن والے عملے جو سعودی لباس زیب تن تھے نے سامان کی اسکینگ کی۔پاسپورٹ ہاتھوں میں لیے،قطار بنائے عازمین حج امیگریشن کی ضروری چیکنگ کے لیے آگے بڑھتے گئے۔ ہم بھی قطار میں لگ گئے۔حسب دستور دستی سامان بھی چیکنگ کیا گیا۔امیگریشن کے بعد سامان انتظامیہ نے بس تک خود پہنچایا۔ اس کے بعدعازمین حج دستی سامان ہاتھوں میں لیے، پاکستان کے جھنڈے والی مخصوص جگہ پہنچ گئے۔ یہاں پر پاکستان کے مختلف شہروں کے ناموں کی جگہیں مخصوس تھیں۔ ہم بھی کراچی نام والی مخصوص جگہ پر پہنچ کر بیٹھ گئے۔ایک کے بعد ایک گروپس اپنی اپنی بسوں میں مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہونے لگے۔ کافی انتظار کے بعد معلم کے نمایندے نے ہمارے گروپ کو بھی پکارا۔ سعودی قانون کے مطابق تمام عازمین حج کے پاسپورٹ معلم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ ہمارے گروپ کے پاسپورٹ بھی معلم نے اپنے پاس رکھ لیے اور ہمیں بھی مکہ مکرمہ کے لیے بس پر سوار کر دیا۔ نماز فجر سے کچھ وقت پہلے ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ رات کا وقت تھا ہم نے کوشش کی کہ بس کے شیشے سے باہر کا کچھ نظارہ کیا جائے۔

راستے میں جدہ سے کچھ فاصلے تک سڑک کے کنارے کجھور کے کچھ درخت تھے۔سڑک موٹر ویز طرز کی دورویا اور کشادہ تھی۔بس نے ہمیں ٤ گھنٹے میں مکہ مکرمہ پہنچا دیا۔ جدہ ایئر پورٹ پر کافی انتظار کی وجہ سے تھکاوٹ ہو گئی تھی۔کچھ دیر ہوٹل کے کمرے میں آرام کیا۔ ہمارے گروپ کی رہائش کا انتظام منطقہ عزیزیا شمالی میں مکتب نمبر ٧٥ بلڈنگ نمبر ٦٠٥بی میں کیا گیا ۔ جس کمرے میں ہم رہائش پذیر ہیںاس میں پانچ عا زمین حج کی گنجائش ہے۔ ناشتے اور دو وقت کے کھانے کا انتظام حکومت پاکستان نے پہلی دفعہ کیا ہے جو بہترین ہے۔ کھانے کے کمرے میں کاوئنٹر کے پاس کھانے کا ہفتہ وار مینیو لگا ہوا ہے۔ مکہ مکرمہ میں عازمین کی رہائش گاہیں اچھی اور ایئر کنڈیشنڈ ہیں۔ ہر رہائش گاہ کی چھت پر ٦ عدد واشنگ مشینیں رکھیں ہوئی ہیں جن سے عازمین حج مستفید ہو رہے ہیں۔ ہماری رہائش میں مردوں اور عورتوں نے کپڑے دھونے کا ٹائم سیٹ کر لیا ہے۔ رہائش گاہ کے گراونڈ فلور کو عازمین حج کے کھانے کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف نماز کے لیے قالیں بچھا دی گئیںہیں۔ رہائش گاہ کے ہر فلورپر دو کچن موجود ہیں جن میں تمام سہولتیں موجود ہیں۔ رہائش سے تھوڑی دور محلے کی ایک مسجد ہے۔ مسجد میں فریج رکھا ہوا ہے جس میں نمازیوں کے لیے پانی کی ٹھنڈیں بوتلیں مہیا کی گئیں ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کے لیے کھجوروں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ہمارے معلم جمال عثمان، سیلمان خان کا دفتر ہماری رہائش گاہ کے قریب ہے۔

Hajj

Hajj

معلم نے عازمین حج کا سامان بسوں سے اُتارنے چڑہانے کے لیے عملے کا اچھا بندوبست کیا ہوا ہے۔ پاکستان حج مشن کا حملہ حاجیوں کی اچھی طرح خدمت کرتا ہے۔پاکستان حج مشن نے عازمین حج کورہائش سے حرم تک پہنچانے کے لیے ٢٤ گھنٹے بسوں کا بہترین انتظام کیا ہوا ہے جو عازمین حج کو پانچ وقت کی نمازوں کے لیے بیت اللہ لے جاتی اور واپس پہنچاتیں ہیں۔ یہ بسیں رہائش گاہ سے پارکنگ ایریا، جو سرنگ کے دھانے پر ہے تک پہنچاتیں ہیںپھر دوسری شٹل سروس سے بیت اللہ کے قریب تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس دفعہ عازمین حج حکومت پاکستان کے انتظامات سے مطمئن اور خوش ہیں۔کچھ عازمین حج نے بتایا کی یہ سارے کام خصوصی طور پر پاکستان کے نیک دل حج ڈاریکٹر نے کروائے ہیں ورنہ گزشتہ سال تو عازمین حج بہت پریشان ہوئے تھے جس کا چرچہ پاکستانی پریس میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں صبح کا وقت ہو گیا تھا۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اپنے اپنے بیڈ پر آرام کے لئے کچھ دیرلیٹ گئے۔اس کے بعد عمرہ کی ادائیگی کے لیے ہمارا گروپ روانہ ہوا۔ تلبیہ پڑھتے ہوئے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی اللہ اکبرلاالہ الا للہ واللہ اکبر پڑھا۔ پھر دونوں ہاتھ اُٹھا کرخوب دعائیں کی۔ جن دوستوں نے دعاوں کے لیے کہا تھا اور جن سے ہم نے دعاوں کا وعدہ کیا تھا ان کے لیے بھی دعائیں کیں۔ اس کے بعداضطباع کیا یعنی داھنا مونڈھا کھول دیا۔

۔پھر طواف کی نیت کی۔”اے اللہ میں آپ کی رضا کے لیے عمرہ کے طواف کی نیت کرتا ہوں آپ اس کو میرے لیے آسان فرما دیجئے اور قبول فرما لیجئے کچھ قدم آگے بڑھ کر اور دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر کہا بسم اللہ اللہ اکبرو اللہ الحمد” پھر یہی دعاکہتے ہوئے حجر اسود کا استلام کیا اوراپنے ہاتھوں کو چوم لیا۔پھر رخ تبدیل کیا اور خانہ کعبہ بائیں طرف ہو گیا۔ پہلے تین چکررمل کے ساتھ طواف کیا۔دعا کی ”ربنا اتنافی الدنیا حسنا و فی الا خرة وقنا عذاب النار”۔تین چکر کے بعد رمل بند کر دیا اور سات چکر مکمل کئے۔آخری بار پھراستلام کیا اور طواف مکمل ہو گیا۔اب اضطباع ختم کیا یعنی دائیں کندھا ڈھک لیا۔مقام ابراہیم پر دو رکعت واجب نماز ادا کی۔آب زم زم خوب پیااوردعا کی۔سعی کے لیے روانہ ہونے سے پہلے آخری استلام کیا۔صفا پر پہنچ کر دعا کی۔”اے اللہ میں آپ کی رضا کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا ارادہ کرتا ہوںآپ اس کو میرے لیے آسان فرما دیجئے اور قبول فرما لیجئے”خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے دعا کی۔”بے شک صفااور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں” ۔صفا سے مروہ کی طرف چلتے ہوئے ہرے ستو نوں کے درمیان دوڑ کر چلے۔اور دعا کی ”رب اغفر وار حم و انک انت الا عز الاکرم”مروہ پہنچ کر قبلہ رخ ہو کر دعا کی اس طرح سات پھیرے پورے کیے۔ سعی پوری ہونے پر قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔اس کے بعد مروہ کی طرف سے باہر نکل کے حلق کیا یعنی سر کے پورے بالوں کو استرا سے منڈوایا۔اللہ نے عمرہ مکمل کر دیا۔قارئین!آج کے دور کا آرام دہ ہوائی سفر اورصفا مروہ پر لگی ماربل اور خوبصورت ٹائیلز، ایئر کنڈیننگ کا انتظام کو دیکھ کے شروع کے دور کا پیدل اور اونٹوں کاتھکا دینے والا سفر،صفا اور مروہ پرسخت پتھریلی زمین اور دھوپ کی تپش دیکھ کر بے ساختہ آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے کہ کس طرح حضرت حاجرہ نے حضرت اسمائیل کی پیاس بجھانے کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ لگائی تھی اور اللہ نے حضرت اسماعیل کے لیے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا تھا جس سے آج تک لوگ پیاس بجھا رہے ہیں اور ہمیشہ پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اللہ نے حضرت حاجرہ کی قربانی کو ہمیشہ کے لیے جای وساری کر دیا یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔(باقی آیندہ)

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.com