تحریر : فاطمہ خان چند سال پہلے ممتاز مفتی کی کتاب لبیک پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا. کتاب دلچسپ تھی اور محض ایک ہی نشست میں میں کتاب مکمل کر چکی تھی .حج کے موضوع پر یہ ایک بہت منفرد کتاب ہے جس, میں اللہ اور بندے کی محبت کو بہت خوبصورت انداز, میں بیان کیا گیا ہے.ا. لبیک پڑھنے کے بعد پہلی بار میرے دل میں بھی اللہ سے اُس کے گھر میں جا, کر ملنے کی خواہش نے سر اُٹھایا تھا. مگر کچھ عرصے بعد میں بھول گئی کہ کبھی میرے دل میں اس طرح کی کوئی خواہش جاگی تھی.
میں تو بھول گئی تھی مگر میرے رب کو یگاد تھا. اسی لئے جب اُس نے بلایا تو میرے دل نے لبیک کہا اور اب تو میرا پورا وجود نجانے کب سے لبیک ہی پکار رہا ہے.سفر حجاز سے لوٹے ہوے مجھے ایک ہفتے سے زائد ہو چکا ہے مگر دل ابھی تک وہی حرم کی خوشبو کے حصار میں قید ہے. آنکھوں میں خانہ خدا کا حسین نظارہ ٹہر سا گیا ہے. قدموں کی ایک ایک چاپ گلستان حرم کی اذان سنتی رہتی ہے. کہنے کو واپسی ہو چکی ہے مگر روح ابھی تک باب الفہد کے دروازے پر بیٹھی ہوئی ہے.
خدا کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اپنے گھر کا مہمان بنایا اور پھر اللہ اپنے مہمانوں کو وہ عزت دیتا ہے جو کسی بھی دنیاوی میزبان کے بس کی بات نہیں ہے. مکہ اور مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوے مسلسل یہی احساس دل کی خوشی کا باعث بنا رہتا تھا کہ ہم اللہ کے مہمان ہیں اور اللہ ہر ایک کو اپنے گھر نہیں بلاتا یہ شرف وہ ہر کسی کو نہیں بخشتا. خانہ خدا میں حاضری کا سماں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا. حرم میں گزارے گئے لمحات میری زندگی کے انتہائی خوبصورت لمحات تھے. حرم کے آسمان کے رنگ سب سے عجیب ہیں نہ ہی یہ نیلا ہے نہ ہی سفید اور نہ ہی یہ سیاہ رنگ کا, ہے.
یہ محبت کے رنگوں سے بھرا ہوا ہے. اس کو صرف دل کی آنکھ سے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے. حرم کے صحن میں موجود ہلکی ہلکی ٹھنڈک کی پھوار صرف دل کو ہی نہیں بلکہ ہماری روح تک کو سیراب کر دیتی ہے. یہاں کوئی بادشاہ نہیں ہے. یہاں سب فقیر ہیں جو اپنی اپنی التجاؤں کے کاسے اُٹھاے اُس کے دربار میں کھڑے ہیں. زبان سے کچھ نہیں کہتے بس آنسوؤں کے نزرانے اُس کے دربار میں پیش کئے جا رہے ہیں. کسی مجزوب کی طرح اُس کے دربار کے گرد چکر لگاتے جا رہے ہیں اور وہ مسکراتا ہوا سب کو اپنے اردگرد گھومتے ہوے دیکھ رہا ہے اور اپنی رحمتوں کی بارش وہ اپنے بندوں پر کرتا جا رہا ہے.
Masjid al-Nabawi
سب اُس کی رحمت کی بارش میں بھیگتے جا رہے ہیں. حرم کے ایک ایک کونے میں میرے رب کی رحمت کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے. وہ تو اپنے بندوں سے بار بار کہتا ہے کہ آؤ اور اس خوشبو سے اپنا دامن بھر لو. اپنے رب کی محبت کے بہت سے رنگ نہ صرف صحن حرم میں پھیلے ہوے ہیں بلکہ مسجد نبوی کے صحن میں بھی جابجا یہ رنگ مجھے بکھرے ہوے نظر آے. مسجد نبوی کے آسمان پر موجود وہ چاند اور اُس کے ساتھ موجود ستارے کو کیسے بھول سکتی ہوں جس کی الوہی چمک نے پورے صحن کو روشن کر رکھا تھا بارہا دل میں خیال آیا کہ یہ کوئی معمولی چاند نہیں ہے یہ شہر محمد کا چاند ہے اس کی چمک کیسے میری آنکھوں کو خیرہ نہ کرے.
مسجد نبوی اور کعبہ کی بلیاں بھی کوئی معمولی بلیاں نہیں ہیں کبھی تو ان پر ٹوٹ کر پیار آتا ہے اور کبھی انہیں دیکھ کر ایک عجیب سا خوف اندر تک سرایت کر جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ بلیاں نہ ہوں. میرے رب کے پہرے دار ہوں جو ہمارے گناہوں کی بھاری بھاری گٹھڑیاں دیکھ کر ہم سے حساب مانگنے آ رہے ہوں اور اُس لمحے یہی دل چاہتا ہے کہ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں یہ بلیاں ہمیں نظر نہ آئیں. اللہ کے گھر کا مہمان بن کر اُس سے قربت کا احساس بھی بہت بڑھ جاتا ہے اور جب وہاں سے رخصت ہونے کا وقت قریب آتا ہے تو اُداسی کی ایک چادر پورے وجود کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے.
دل چاہتا ہے وہیں اس کے گھر کے گرد چکر لگاتے لگاتے خود کو فنا کر دیں. لوگ پہلی نظر کی بات کرتے ہیں مگر مجھے تو آخری نظر کا کرب نہیں بھولتا. وہ گھر جس کو روز دیکھ کر میں اپنی آنکھوں کو بلکہ اپنے پورے وجود کو سیراب کیا کرتی تھی. اب میری نظروں کے سامنے نہیں ہو گا یہ احساس ہی کس قدر جان لیوا تھا. پھر ملنے کے وعدہ کے ساتھ شہر محمد اور کعبے کو رخصت کیا. اب جبکہ میں واپس آ چکی ہوں مگر اس سفر محبت کی یادیں میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی. یہ میری زندگی کا سرمایہ ہیں. بس اب اُس رب ذولجلال سے یہی التجا ہے کہ وہ اپنے گھر بار بار بلاے .اللہ ہر مسلمان کو یہ سعادت بخشے. آمین
میری آنکھیں بہت خوبصورت ہو گئی ہیں کیونکہ انہوں نے کعبے کو دیکھ لیا ہے میرے ہاتھوں سے خوشبو نہیں جاتی کیونکہ انہوں نے کعبے کو چھو لیا ہے میرے پیر رنگوں سے بھر گئے ہیں کیونکہ انہوں نے بارہا کعبے کے گرد بہت سے چکر لگانے ہیں ان رنگوں, ان خوشبوں کو تاعمر میں اپنے ساتھ رکھوں گی میرے جینے کے لئے یہ اثاثہ کافی ہے.