ساون میں موسم میں قدرت بھی کیا رنگ بکھیرتی ہے،کہیں سخت گرمی تو کہیں برکھا برسا کر زمین والوں کو ذہنی و جسمانی سکون دیتی ہے،ایسے ہی کچھ حالات پھولوںکے شہر پشاور میں بھی چل رہے تھے،گرمی ایسی کہ گھر سے نکلنا محال ،ہر طرف اُف اُف کی آوازیں ۔۔انسان تو انسان چرند وپرند بھی ساون کی گرمی سے گھبراگئے۔مگر ہمارے لئے قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ہر دلعزیز دوست علامہ مقصود احمد سلفی صاحب کا برقی پیغام ملا کہ تین دن ایبٹ آباد کے پُرفضا مقام پر گزارنے ہیں اس لئے آپ اپنی رائے بتائیں۔وہ کہتے ہیں ناں کہ” اندھے کو کیا چاہئیں دوآنکھیں”۔سو ہم نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔اور نکل پڑے ان کے ادارے جس میں وہ کام کرتے ہیں کے ساتھ پشاور کی گرمی سے دور ایبٹ آباد کے پُر فضا مقام کا لطف لینے۔ پروگرام کچھ اس طرح بنا تھا کہ ہمیں ان کے دفتر واقع پشاور صدر مقررہ وقت پر پہنچنا تھا۔اس لئے وقت کی پابندی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ان کے بتائے ہوئے مقررہ وقت پر ان کے دفتر پہنچ گئے۔وہاں پہنچنے پر دفتر میںآئے ہوئے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے ہمارا بھر پور استقبال کیا۔ابھی ان سے یہی کچھ چل رہاتھا کہ ہمیں گاڑیوں میں سوار ہونے کے لئے کہا گیا۔ہم چونکہ ائیر کنڈیشن کی مصنوعی ہوائوںکا مزا لے رہے تھے اس لئے باہر پڑنے والی گرمی کو یکسر بھول گئے تھے۔
اس لئے جونہی باہر قدم رکھا جیسے چکر سا آنے لگا ہو۔خیر تھوڑی دیر کی گرمی اس وقت ختم ہوئی جب ہم پہلے سے کھڑی ایئر کنڈیشنز گاڑیوںمیں سوار ہوئے۔ گاڑیاں منزل یعنی ایبٹ آباد کی جانب رواں دواں ہوئیں۔راستے میں قریب بیٹھے روہن سرب دیال سے بات چیت چلتی رہی۔ہم کوئی تین گھنٹے کی مسافت کے بعد ایبٹ آباد پہنچے جہاں لگژری ہوٹل میں ہمارے رہنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ہم فریش ہوئے تو کھا نا تیا ر تھا ،اس کے بعد ہمیں تھوڑی دیر آرام کرنے اور پھر سیشن کے لئے کہا گیا۔قریباً 5بجے ہم ہوٹل کے نچلے والے حصے میں آئے جہاں بین المذاہب ہم آہنگی بارے سیشن ہونا تھا۔سیشن ہوا جس میں آپس کے اختلافات کے خاتمے پر بھرپور لیکچر موجود تھا۔کہ جس کی بدولت ہم آپس کی غلط فہمیاں یکسر ختم کرنے میں آسانی محسوس کررہے تھے۔سیشن کا اختتام ہوا اور ہمیں دوسرے روز کے پروگرام کے بارے میں ایک تفصیلی کاغذ تھما دیاگیا۔دوسرے اور تیسرے روز بھی یہی کچھ تھا تاہم درمیان میں آدھے دن کا ٹھنڈیانی کا سفر بھرپور رہا۔جس میں تفریح کا بہترین سامان میسر تھا۔جہاں صاف ستھرا ماحول پر ایک سرگرمی کروائی گئی۔مذکورہ سرگرمی میں دوستوںکے علاوہ وہاں آئے ہوئے سیاحوںنے بھی بھرپور حصہ لیااور ہماری اس کاوش کو سراہا۔ بہرحال دنیا کے تمام معاشرے اور قانون نہ صرف اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں بلکے باقاعدہ اقلیتوں کو حقوق بھی فراہم کرتے ہیں۔
اسلام اقلیتوں کو تمام تر حقوق عطا کرتا ہے،اوراقلیتوں کے حقوق اسلامی تعلیمات کا ایک مستقل اور علیحدہ باب ہے۔بلکہ اللہ تعالی نے قران پاک میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256 میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے۔اسلامی بزور تیخ و تلوا رنہیں بلکے قولی، فعلی اور عملی تشہیر و تبلیغ سے پھیلا ہے۔ اسلام میں تبدیلی مذہب اور دخول اسلام کی تین ممکنہ صورتیں ہیں اول یہ کے کوئی شخص کسی مسلمان کی ذات و کردار سے یا کسی اسلامی معاشرے کے مجموعی نظام سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لے، دوم یہ کہ کوئی شخص خد مختلف مذاہب کا محققانہ جائزہ و مطالعے کرے اور تحقیق سے اسلام کو اپنے لیے پسند کرے،اور سوم یہ کے مسلمانوں کی تبلیغ یا باہم گفتگو اور احسن بحث سے کسی شخص کو اسلام کا قائل کیا جائے اور وہ اسلام کو اختیار کر لے۔چانچہ اس بارے میں صیح بخاری کی ایک حدیث سے بات مزید واضح ہو جاتی ہے جس میں رسول اکرم ۖ نے فرمایا کے تین شخص ایسے ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے، حدیث بخاری کی ترتیب کے مطابق پہلا شخص وہ ہے جو اہل کتاب میں سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد ۖ پر ایمان لائے۔ خالص اسلامی معاشرے میں یا نظام ریاست میں اقلیتوں کو اگرچہ ذمی اور دوسرے درجہ کا شہری شمار کیا جاتا ہے لیکن شہریت کا یہ درجہ اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق بشمول مذہبی حقوق،آزادی، فلاح اور بہبود سے کسی صورت محروم نہیں کرتا ہے، بلکے اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست یا حاکم وقت کی ذمے داری ہے۔
چناچہ صیحح مسلم کی حدیث کے مطابق رسول اکرمۖ نے وصیت کی کہ ذمیوں کی ہر ممکن خاطر مدارت کرنا جیسے کے میں کرتا تھا۔اور صیحح بخاری میں خلیفہ راشد حضرت عمر کی ایک روایت ہے جس میں ہے کہ خلیفہ عمر خطاب نے(وفات سے تھوڑی دیر پہلے)فرمایا کہ میں اپنے آنے والے خلیفہ کو اس کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ۖ کا (ذمیوں سے)جو عہد ہے اس کو وہ پورا کرے اور یہ کہ ان کی حمایت میں انکے دشمنوں سے جنگ کرے اور انکی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے۔اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے جزیہ لیا جاتا ہے جس کے عوض انکو بنیادی ضروریات زندگی،تحفظ جان و آبرو وغیرہ مہیا کیا جاتا چانچہ خلافت راشدہ میں جب شام کا ایک شہر مسلمانوں کے زیر قبضہ آیا تو متعلقہ حکام نے وہاں کے اقلیتی باشندوں سے(حسب قاعدہ)جزیہ لیا لیکن جزیہ کی وصولی کے بعد ایسے حالات پیدا ہو گے کہ مسلمانوں کو وہ شہر چھوڑنا پڑا، اس موقع پر اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید نے غیر مسلم رعایا کو بلایا اور انکی پوری رقم یہ کہ کر واپس کر دی کہ ہم نے آپ سے آپکی حفاظت کے لیے جزیہ لیا تھا لیکن اب چونکہ ہمیں اس شہر کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور ہم آپکی حفاظت نہیں کر سکتے لہذا جزیہ کی رقم واپس کی جاتی ہے۔
اقلیتوں سے متعلقہ اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے کے بعد یہ سوال لازماً ہر ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر پھر پاکستان میں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں؟ میرے نزدیک اسکی تین بنیادی وجوہات ہیں، اول یہ کے پاکستان میں حقیقی طور پر اسلام نافذ ہی نہیں ہے بلکے پاکستانی ریاست کے نظام کا دین اسلام سے نہایت خفیف اور برائے نام ساتعلق ہے، دوم یہ پاکستانی قوم حقیقی قومی و ملکی سطح کی قیادت سے محروم ہے اور سوم یہ عوام میں دیگر مذاہب کے بارے میں پائی جانے والی متشدادنہ اور انتہاپسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے اصلاح و تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ایک ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی عظیم اکثریت کے ساتھ اقلیتوں کو بھی تمام تر حقوق فراہم کرے، مذہب کی جبری تبدیلی کو نا ممکن بنایا جائے،بے بنیاد الزامات کوقانوناً جرم قرار دیا جائے ، لیکن قانون سازی کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ عوام کی مجموعی طور پر اس طرح تربیت واصلاح کی جائے کہ دیگر مذاہب کے بارے میں متشددانہ اور انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ ہو سکے۔ اب یہاں ایک آخری لیکن اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقلیتوں یا غیر مسلموں میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کیسے کی جائے تواسکی ایک صورت تو یہ ہے کہ مختلف ذرائع اور وسائل سے غیر مسلموں تک اسلام کی تعلیمات پہنچائی جائیں اور اسلام سے شناسائی پیدا کی جائے لیکن میرے نزدیک اس کی بہترین اور اعلی صورت تو یہ ہے کہ افراد کا انفرادی کردار اور ریاست کا مجموعی نظام اسلامی حدود اور خطوط پر اس طرح استوار ہو کہ وہ نا صرف دوسری ریاستوں کو بھی متاثر کرے بلکے انفرادی طور پر افراد کے اذہان اور قلوب کو بھی اسلام کی صداقت اور حقانیت کا قائل کرے۔