تحریر : تنویر خٹانہ یوں تو پاکستانی قوم ہر چیز میں ہی اپنی مثال نہیں رکھتی لیکن جب باری آتی ہے جہاز میں سفر کی تو ہماری قوم اتنی زیادہ بد لحاظ ہو جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ او بھاہئ ہم نے جہاز کا ٹکٹ خریدہ ہے کوہئ پورا جہاز نہیں اور یہ واقعتا لمحہ فکریہ ہے۔ اس دفعہ عید قربان پاکستان میں کرنے کا ارادہ کیا تو جوسب سے پہلی چیز ذہن میں آہئ وہ ٹکٹ تھی تو جی آج کل تو انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور پھر موبائل فون نے یہ دقّت بھی دور کر دی ہے تو ہم نے جی ٹکٹ دیکھنے شروع کیے سچی بات ہے کہ مدت ہوہئ مجھے پی آہئ اے پر سفر کیے ہوۓ اور اس کی وجہ پی آہئ اے کی ناقص سروس ہے ۔ تو خیر جی ٹکٹ کی قیمت دیکھ کر تو الامان الحفیظ پڑھا اور خاموش ہو گئے۔
ایک دوست نے بتایا کہ بھئ نئ ایئرلائن سٹارٹ ہوہئ ہے اس کو چیک کریں تو جی باقی ائیرلائن جو ٹکٹ آٹھ سو کا دے رہے تھے وہ مجھے ساڑھے چار سو کا ملا اور مجھے اپنے آپ سے کیا ہوا عہد توڑنا پڑا اور جی شاہین ائیرلائن کا ہم نے ٹکٹ بک کر لیا۔ اب جی چیکنگ ان سے لیکر جہاز تک پہنچتے پہنچتے پی آہئ اے کی سروس کی یاد بہت ستائی چونکہ شاہین اور پی آہئ اے میں قطعا کوہئ فرق نظر نہیں آیا۔
جہاز کو دیر سے اڑانا جو کے شاید ہماری قومی ائیرلائن کا خاصا ہے تو اسے شاہین نے بھی برقرار رکھ کہ پاکستان ایوایشن کی تاریخ کو زندہ رکھا۔ پہلے تو جہاز میں بٹھانے سے پہلے ہی آدھا گھنٹا ہمیں ہمارے حکمرانوں کی طرح ڈاؤننگ سٹریٹ کہ دروازے پر شاید نواز شریف سمجھ کر کھڑا کر دیا گیا کہ انتظار کرتے کرتے ہماری آنکھوں کے ساتھ جسم کا ہر حصہ تھک گیا۔ پھر جو اللہ اللہ کر کہ دروازہ کھلا تو بیٹھتے بیٹھتے جو طوفان بدتمیزی ہماری قوم نے کیا تو بھئ مجھے اپنے فیصلے پر صد افسوس ہوا ۔ مگر اب کیا کر سکتے تھے ہم اوکھلی میں سر دے چکے تھے۔
Shaheen Airline Hostess
اب جو جہاز میں موجود لوگوں نے فرمائشیں شروع کیں تو ائیر ہوسٹس بیچاریاں پریشان ہو گئیں۔ ایک بھائی نے کمبل مانگا تو اس میں کچھ دیر ہوگئ تو انھوں نے جہاز سروس اور پتا نہیں کس کس کو کوسا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ پاکستان کہ مستقبل پر یہ صاحب بھی باقی عوام کی طرح لمبی تان کر سوتے ہونگے ۔ جیسے کمبل ملتے ساتھ ہی لمبی تان کر سو گئے تھے۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنے سستے ٹکٹ میں ہم امارات کی سروس کیوں مانگتے ہیں تو بھائئ اگر آپکو اچھی سروس چاہیے تو اچھی ائیرلائن میں سفر کریں نا نیو خان میں نہیں ۔ کھانا بھی ائیرلائن کا کچھ خاص نہ تھا لیکن ہم پاکستان پہنچے اور ہم نے آئندہ شاہین پر سفر کرنے کو واپسی سے مشروط کر دیا۔
واپسی پر تو وی آہئ پیز کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے جنھیں قلی یوں آگے لے جاتے ہیں جیسے ہی ٹی آہئ کے جلسے میں عمران خان ۔ خیر دو گھنٹے لائن میں کھڑے رہنے کہ بعد ہماری باری آہئ اور جہاز پر سامان بک کروا کر سیدھے جہاز پر پہنچے واپسی پر بھی وہی حال نہ کمبل نہ ٹشو نہ پانی اور کھانا بھی مناسب اور ہماری بہنوں کی سروسز کا تو کیا کہنا ۔غرض یہ کہ آئندہ شاہین پر سفر نہ کرنے کہ عہد کے ساتھ ہم گھر پہنچے مگر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے لوگ جہاز میں جا کر بہت شور مچاتے ہیں۔
پنجابی کی کہاوت ہے کہ گھر چاھے دال بھی نہ ملتی ہو۔ گزارش صرف یہ ہے کہ ایئرہوسٹس بھی کسی کی بہن بیٹی ہے اسے اپنی بہن بیٹی سمجھ کر بات کیجیے اور تھوڑی سی برداشت اپنے اندر پیدا کریں کچھ چیزوں میں دیر سویرہو جاتی ہے۔ بس اسے درگزر کریں اور پاکستانی ائیرلائنز کی عمدہ سروس پر صبر شکر کریں۔