تحریر: عفت قائد اعظم بذریعہ ٹرین فرنٹئیر میل لاہور پہنچتے ہیں ۔لاہور کے منٹو پارک میں ہر طرف سر ہی سر نظر آ رہے ہیں۔ یہ اجتماع مسلمانوں کے اخوت اور بھائی چارے ،تہذیب و تمدن کا جاوداں ثبوت ہے ۔قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی آمد کا منظر نگاہوں کے لیے خیرہ کن ہے۔ دونوں نے شیروانیاں زیب ِتن کر رکھی ہیں ،صدیق علی خان کی قیادت میں مسلم لیگ کے چاق چوبند گارڈ انہیں اپنے جلو میں لیکر ڈائس تک پہنچتے ہیں ۔اے کے فضل الحق،چوہدری خلیق الزماں ،بہادر یار جنگ ،مولانا ظفر علی خان بھی اس اہم ترین تاریخی موڑ پہ موجود ہیں ۔بیگم مولانا محمد علی جوہر سر تا پا کالے برقعے میں موجود اس بات کا احساس کے ساتھ کہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ قدم بہ قدم ہیں۔
اس اجلاس کا آغاز ٢٢ مارچ ١٩٤٠ سے ہوتا ہے ۔ابتدا میں میاں بشیر احمد کی نظم ،ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح ۔ملت ہے جسم و جاں ہے محمد علی جناح ۔بزبان غیاث غازی کی گونج مجمع میں جوش پیدا کر دیتی ہے ۔گو مسلمانوں کو اپنی منزل قریب ترین دکھائی دے رہی ہے ۔لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ اس کا تیر، ایسی کڑی کمان ہے محمد علی جناح۔کے فقرے ایک نئی امنگ جگا دیتے ہیں ۔قائد کے مسکراتے لب گویا اس بات کی تائید کر رہے کہ ان کا حوصلہ بلند ہے اور وہ ان کچلے ہوئے محکوم عوام کو آزادی کی نوید سنا کے دم لیں گے۔
Quaid Azam
قائد نے ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے کی فی البدیہہ تقریر کی ۔ان کی تقریر انگریزی میں ہے مگر الفاظ اور آواز کا کرشمہ ملاحظہ ہو کہ انگریزی سے نا بلد افراد پر بھی سکوت طاری ہے ۔گویا قائد کے الفاظ ان کے دل کی ترجمانی کر رہے ہوں۔
انہوں نے فرمایا : (مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں ۔ہندو اور مسلمان مذہبی،روحانی اور سماجی فلسفے کے لحاظ سے الگ الگ قوم ہیں ۔یہ نہ آپس میں شادی کر سکتے نہ اکٹھے کھا پی سکتے ،ان کی تہذیبیں الگ ہیں جو اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں ۔ہندو اور مسلم تاریخ کے مختلف زرائع سے ہدایت حاصل کرتے ان کے ہیروز اور قصے کہانیاں الگ الگ ہیں ،اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے ۔سو یہی حال ان کی فتو حات اور شکستوں کا بھی ہے لہذا دونوں کا ایک ریاست میں رہنا جبکہ ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میںہو ۔ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ۔سو مسلمان ایک الگ قوم ہیں ان کے پاس اپنا علاقہ اپنی ریاست ہونی چاہیے جہاں وہ اپنی تہذیب روایات اور مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔)
اب ذرا پسِ منظر کا جائزہ لیں ۔برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار قوم کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں ١٩٣٧ اور ١٩٣٦ میں جو انتخاب ہوئے ان میں مسلمانوں کو بری طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور اس دعوے کو شدید زک پہنچی کہ مسلم لیگ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے لہذا مسلمانوں کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور ان کی بے بسی کا عجب عالم تھا غرض ہندوستان کے کسی صوبے کا اقتدار نہ ملا ۔اٹھارویں صدی میں مغرب میں قوم اور قومی ریاستوں کے تصور کے ظہور سے قبل ہی ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں مگر ١٨٥٨ میں تاج برطانیہ نے دونوں کو ایک قوم قرار دے کر حکمرانی شروع کی تو ہندوستان کے مسلمان اپنے تشخص کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے (مسلم وقف الاولاد قانون کی برطانوی ہند میں منسوخی اور قائد اعظم کی ١٩٣١ میں اس کی بحالی اس امر کی مثال ہے اور یہی اصل میں قراردادِپاکستان کی بنیاد بنی جس نے مسلمانوں کے مستقبل کا تعین کیا۔
Allama Iqbal
٢٣ مارچ ١٩٤٠ میں مسلم لیگ کے اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی۔ وہ در حقیقت علامہ اقبال کی کاوش ِکاملہ کا نتیجہ تھی ،جو انہوں نے مئی١٩٣٦ سے نومبر ١٩٣٧ کے عرصے میں قائد اعظم سے بذریعہ خط وکتابت گفت وشنید کی تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کریں اور جلد از جلد مسلم اکثریتی علاقے لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کریں ۔آل انڈیا مسلم لیگ کا ستایئسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک میں منعقد ہوا جو ٢٢ مارچ سے ٢٤ مارچ تک جاری رہا۔
اس جگہ یادگار ِپاکستان تعمیر ہے ۔اور بالاآخر ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو وہ تاریخی لمحہ آگیا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان کے شمال مشرقی اور مغربی جہاں مسلم اکثریت تھی ان پہ مشتمل الگ ریاست کا مطالبہ کیا ۔اسے قائد اعظم اور سکندر حیات نے تیار کیا اور ٢٢ مارچ کو پیش کیا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور اسے صوبہ بنگال کے اے ۔کے فضل الحق نے کھلے اجلاس میں پیش کیا۔ قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ہندوستان کی تقسیم قبل ہی 1941 سے ہی 23 مارچ کو بطورِ یوم پاکستان منانا شروع کر دیا گیا تھا۔ قرار داد بعد ازاں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔
لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943میں قائد نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کا لفظ قبول کر کے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پہ وہ تاریخی قرار داد منظور ہو گئی اور سات برس بعد پاکستان قرارداد کی حقیقی شکل میں سامنے آیا ۔یہ کہانی کوئی عام کہانی نہیں ایک جہدِمسلسل اور قربانیوں کی لمبی داستان ہے کہ ایک مرد ِ مجاہد کی قیادت نے ہمیں ایک آزاد وطن دیا ۔اور آج جب ہم اس وطن میں آزادی سے سانس لے رہے تو ہم سوچتے ہیں کس دن کو منائیں کس کو نہ منائیں ہم ویلنٹائن ڈے تو منا سکتے مگر اپنے قائد کے ڈے کو نہیں کوئی تجدید ِ عہد نہیں فقط واویلا تو محض کہ شکر ہے کل کی چھٹی ہے۔۔۔