آجکل دنیا میں ہر طرف تیز رفتار کی ڈور لگی ہوئی ہے۔ ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک سال کے عرصہ میں مکمل ہونے والا کام ایک ماہ میں مکمل کرلے۔ ماضی میں جب موٹر کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ عوام پیدل اور گھوڑا گاڑی پر سفر کرتے تھے۔ راستے میں تھکاوٹ سے نجات حاصل کرنے کیلئے اور رات بسر کرنے کیلئے وقفہ وقفہ پر قائم مسافر خانوں میں آرام کرتے۔
جہاں پر جانواروں / سواری کیلئے بھی جگہ مخصوص ہوتی، اور پانی، روشنی، آرام دے فرنیچر بھی میسر ہوتا۔ اکثر مخیر حضرات نیکیاں کمانے کی خاظر مسافر خانوں میں پانی و دیگر اشیاء مہیا کیا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ موٹر کے دور کا آغاز ہوا تو مسافر خانوں میں بھی پنکھے و دیگر سہولتوں کی آمد شروع ہوئی۔ تو ترقی یافتہ اور انسانیت کا درد رکھنے والے ممالک نے مسافر خانوں میں تمباکو نوشی کیلئے علیحدہ کمرہ تعمیر کیے، ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن بھی مہیا کر دیا گیا۔
گندی سے محفوظ رہنے کیلئے پختہ مسافر خانوں کی جگہ شیشوں کے ڈبے تعمیر ہوگئے۔ مسافر خانوں کی بدولت مسافر دوران سفرہونے والی تھکاوٹ میں کمی محسوس کرتے اور سفر سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔
1947 میں قیام پاکستان کے وقت بیشتر ضلعوں میں بس اسٹیشن ۔۔ریلوے اسٹیشن۔۔ٹانگہ اسٹینڈ و سٹاپوں پر مسافر خانے موجود تھے۔ جہاں پر بیٹھ کر مسافر اپنی سواری(گاڑی) کا انتظار کیا کرتے تھے۔ عرصہ دراز سے پاکستانی ریلوے کی خوبی ہے کی وہ وقت مقر ہ پر نہیں پہنچتی۔ مسافر ریلوے اسٹیشن پر واقع مسافر خانہ میں 24گھنٹے تک انتظار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
Bus Stop
بیشتر اوقات بسوں میں خرابی کی وجہ سے بھی مسافر آدھی رات اور لوڈشیڈنگ میں اپنی سواری (گاڑی) کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر مسافروں میں بچوں اور بزگوں کی تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔ جن کو انتظار کے دوران پانی اور بیٹھنے کیلئے فرنیچر کی ضرورت ہوتی ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ بس سٹاپ پر مسافر خانوں کا وجود ابھی تک پاکستان میں متعارف ہی نہیں ہو سکا۔ اور بس اسٹیشنوں سے مسافر خانے تقریبا ختم ہو گئے ہیں، ریلوے اسٹیشنوں پر مسافر خانوں کا وجود باقی ہے مگر پاکستانی ریلوے کا وجود ختم ہونے والا ہے۔
پاکستان میں منشیات کے عادی مریضوں کی اکثریت رات بسر کرنے کیلئے پارکوں۔۔چوراہوں۔۔ فٹ پاٹ اور مسافر خانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ممکن ہے؟ نشیوں کی موجودگی / قبضے میں کوئی شریف خاندان مسافر خانے میں سواری کا انتظار کرئے؟ بس اسٹیشن پر صاف پانی کا حصول صرف اور صرف منرل واٹر کی صورت میں میسر آتا ہے، مگر اس کی کوالٹی بھی بازار کی نسبت کم اور ریٹ 33% تک زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی حالت دیگر اشیاء خوردونوش کی ہے۔ ترقی یافتہ۔۔ تہذیب یافتہ ممالک میں دوران سفر انٹرٹینمنٹ کیلئے ٹیلی ویژن اور ٹیپ کی سہولت میسر ہوتی ہے، جس پر خاندانی اور اخلاقی پروگرامات چلائے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے جمہوری ملک میں بس اسٹیشن و گاڑی کے اندر ڈرائیور۔۔ کنڈیکٹر اور دیگر عملہ آپس میں گالیاں دیکر مسافروں کو لطف اندوز کرتے ہیں۔
اگر کسی گاڑی ٹیلی ویژن اور ٹیپ کی سہولت میسر ہو، تو فحاشی پر مبنی مواد لگا دیا جاتا ہے۔ بیشتر مسافر دوران سفر قیمتی لباس۔۔ جیولری۔۔ اشیاء کے ہمراہ ہوتے ہیں، جن کو مسافر خانے کے مستقل مقیم (نشئی) رات کے اندھیروں میں لوٹ لیتے ہیں۔ پاکستان میں مقیم پرائیویٹ بس کمپنیوں نے ترقی یافتہ ممالک کی کاپی کرتے ہوئے اپنے بس اسٹینڈ کی حدود میں مسافر خانے قائم کیے ہوئے ہیں اور کافی حد تک سیکیورٹی کا انتظام بھی۔
مسافر خانوں کا مسلہ پاکستان میں صرف زمینی مسافروں کوہی درپیش نہیں، یہ مسلہ ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کوبھی درپیش ہے۔ پاکستانی سرکاری و نجی ائیرلائن بیشتر اوقات لیٹ ہوتی ہے۔ وجہ صرف اور صرف فنی خرابی ہی قرار دی جاتی ہے۔ فلیٹ لیٹ ہونے سے پاکستانی وبیرونی ملک مقیم ہوائی اڈے کی انتظامیہ مسافروں کی بورڈنگ نہیں کرتی، مسافروں کو بمعہ سامان ہوائی اڈے کے باہر فلائٹ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس دوران مسافر کو اگر ٹوائلٹ جانا ہویا نمازکی ادائیگی کیلئے مسجد تو سامان کے چوری ہونے کا خطرہ بھی دل میں سما جاتا ہے، دیگر ممالک کی ائیر کمپنیاں تقریبا وقت مقرہ پر آمد اور روانگی کرتے ہیں، اگر کبھی خرابی کی بدولت فلیٹ لیٹ ہوجائے تو انہوں نے ہوائی اڈوں پر مسافروں کی سہولت کیلئے انتظار گاہ (مسافر خانے) بنا رکھے ہیں، جہاں پر مناسب سیکیورٹی اور دیگر ضروری سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اگر وہ نئے مسافر خانے قائم نہیں کر سکتے سابقہ کی مینٹینیشن نہیں کر سکتے تو برائے مہربانی فرماکرسابقہ ادوار میں قائم کیے گئے مسافر خانوں کی صفائی کا حکم ہی جاری کر دیں، اور نشیوں پر مسافر خانوں کی حدود میں داخل ہونے کی بھی پابندی عائد کریں۔