تحریر: عاقب شفیق بے شمار غیر شمالی اصحاب الشمال سے شمالی علاقہ جات کے حسن کی تعریفیں کثرت سے سن رکھی تھیں۔ خود بھی جی بھر کے وطن ِ عزیز کے شمال کو دیکھ چکا ہوں۔ گر یوں کہا جائے کہ ہماری شمالی سمتانہ آوارہ گردی کی تشنگی اپنے اختتام کو پہنچی تو بات مبالغے کے عارضے سے پاک ہوگی۔اسی طرح بعض رفقاء سے پاکستان کی شہرہ آفاق سواری محترمہ ریل گاڑی صاحبہ کے لطف کے بارے ایک عرصے سے سن رکھا تھا۔ پھر ٹیلی وژن پر متعلقہ وزارت کے نمائندوں سے محترمہ کے اسمِ پاک کی تعریفیں سن سن کے جہاں کان پک رہے تھے وہیں اصحاب ِ حزبِ اختلاف نے اس نام کی کسی بھی چیز کے سوہنی دھرتی پر وجود سے صاف انکار کر کے معاملہ غور طلب بنا دیا۔
سیاسی بیانات و حالات سے درکنار، اپنی اس سواری کے شوق کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔ سید ضمیر جعفری صاحب کے کلام سے پیدا ہونے والے شوق کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آن پہنچا تھا۔ سوچ بچار کے بعد سفر اور اس کے زاد کے بارے میں تفصیلی غوروفکر کے بعد فقط کپڑے بیگ میں رکھے اور ایبٹ آباد سے جیکب آباد تک کے سفر کو زیست ِپریدہ کی دیرینہ خواہش پر واری واری کر دیا۔ اگلے روز راولپنڈی پہنچا ، بتایا گیا کہ یہاں سے کراچی روٹ کی ریل گاڑی مل سکتی ہے۔ جیکب آباد کی ٹرین اٹک ریلوے جنکشن سے شام سات بجے نکلتی ہے۔ اٹک کی گاڑی پر بدقسمتی بلکہ شدید بدقسمتی سے مجھے نشست ِ آخر ملی۔ بدقسمت اس لیئے نہیں کہ وہ آخری تھی ۔ اس بات پر میرا یقین ِ کامل تھا کہ تمام سیٹیں ایک ہی وقت پر اٹک پہنچیں گی۔بد قسمتی کی وجہ میرے ساتھ بیٹھا نو بیاہتا جوڑا تھا۔ نشستوں اور سواریوں کی تعداد برابر ہونے پر سفر کی دعا پڑھی۔”دیکھو ناں جان! تم نے پیپسی پھر نہیں لی ناں میرے لیئے؟” نوبیاہتی کی بچوں جیسی ضد نے میرے سر کو زبردستی پکڑ ا اورجوڑے کی سمت موڑ کر آنکھوں کو جبراً زوم کرنے پر اکسایا۔
”او جان! ناراض مت ہو ناں۔۔۔ میں ابھی گاڑی رکوا کر پیپسی کے ساتھ لیز بھی لیتا ہوں” موٹی ساری اہلیہ کے کمزور سے انیس بیس برس کے نوبیاہتے کے بے بس جواب پر میں نے تین بار باآوازِ خفی استغفار کیا اور نکہت امروہوی صاحبہ کی نظم ” میں تجھ کو سکھاؤں پیار! ارے بابا نہ بابا” فُل والیوم کے ساتھ لگا کرہینڈفری کانوں میں تُن کر بے فکر مند ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں ابھی تیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ پہلو کی نشست سے یکے بعد دیگرے دھکے شکے لگتے رہے ۔۔ لیکن قسم باجمال ِ انار کلی نہ تو میں نے آنکھیں کھولی اور نہ ہی کانوں سے ہینڈ فری نکالے۔ ایک وقت میں گہری نیند میں تھا کہ اچانک شدیدزور کی کہنی میری پسلی پر لگی۔ میرے کان ‘سوری’ کے متلاشی رہے۔ پس، متلاشی ہی رہے۔ غصے کی شدت کے باوجود،انہیں مخاطب کرنے کے ارادے کو غصہ پینے کی سنت پر حاوی نہ ہونے دیا۔گاڑی رکی تو آنکھیں کھولیں۔ اتر کر ریلوے سٹیشن کا پوچھا تو بتایا گیا ” سامنے روڈپر سیدھا جاؤ۔ وہ سٹیشن کی سمت جا رہا ہے” سٹیشن کی خستہ عمارت کافی پرانی تھی۔بائیں جانب چائے والے نے ٹھیہ سجایا ہوا تھا ساتھ ہی کچھ ٹوٹے بنچ پڑے تھے انکے عقب سے جھانکتی آدھ گری مٹی کی دیوار پر سفیدی سے ‘ہوٹل’ لکھا تھا۔دائیں جانب ڈاکخانہ طرز کے کمرے تھے وہاں کا عملہ بھی ڈاکیانہ طرز کی وردی زیب تن کئے ہوئے تھا۔ خاکی رنگ کے پاجامے پر چار بڑی بڑی جیبوں والی شرٹ جس پر فوجی وردی کی طرح شولڈر آویزاں تھے۔ بڑے غور سے انہیں دیکھا پر سمجھ نہ آئی کہ حضرات کون ہیں؟۔
Abbottabad
پٹھڑی کے لوہے سے سڑک کو گاڑیوں کے دخول کے کیلئے مستقل بند کیا ہوا تھا۔ بائیں جانب سے عمارت کا داخلی راستہ تھا۔ اندر انتظار گاہ نما برامدے کے سامنے ٹکٹ گھر تھا اس کے ساتھ دفتر معلومات تھا ان دونوں دفاتر کی کھڑکیوںکے مابین کرایہ نامہ نامی بورڈ معلق تھا۔انتظار گاہ میں چاروں جانب بیٹھنے کیلئے مغلیہ طرز کے پرانے بنچ مکڑیوں کے جالوں سے افسانوی ماحول کے عکاس تھے۔بائیں جانب ایک نوعمر خاتون بیٹھیں تھیں جن کے ہمراہ تقریباً دو گھروں کا سامان تھا۔ گٹھڑیاں ، بوریاں ، سلائی مشین اور چارپائیاں وغیرہ تو بالکل راستے میں پڑی تھیں۔کچھ سمجھ نہ آیا کہ بے چاری محترمہ اکیلے کیسے سفر کریں گی؟۔ایسے مواقع پر مستورات سے ہمدردی تو ابن ِ آدم کا صدیوں سے شیوہ رہا ہے۔ ایسا میں نے شائد زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا ۔ یقینا اسی لیئے وقتی ہمدردی وقوع پذیر ہوئی۔ ابھی سات بجنے میں نصف گھنٹہ باقی تھا ۔ جیسا سن رکھا تھا کہ سٹیشن پر شدید رش ہوتا ہے۔ خدا جانے کہاں ہوتا ہے؟ بالکل ویسا نہیں تھا۔ مجموعی طور پر بیس مسافر نظر آئے۔ کونے میں بندوق زن چھڑی تھامے کھڑے پولیس کانسٹیبل سے پلیٹ فارم کا پوچھا تو مخالف سمت میں دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باہر جانے کو کہا۔ پرانی دیواروں پر سوالیہ تفصیلی نگاہیں دوڑاتا دھیرے دھیرے دروازے کی سمت بڑھنے لگا دیواروں پر لکھے اقوال ِ زریں فقط سگریٹ نوش بھائیوں کو مخاطب کر رہے تھے۔ دروازہ لوہے کی سلاخوں سے بنا ہواتھا۔ اسے غور سے دیکھ کر جونہی باہر نکلا تو اچانک سے سفید موٹی ساری بلا نے مجھے اٹھا کر اندر پھینکا ۔ فورا ًسے بیگ سنبھالا اٹھ کرکپڑے جھاڑکر دیکھا تو باہر جیسے ہزاروں افراد کا دھرنا ہو۔ بائیں جانب ایک پٹھان بھائی سفید رنگ کا وہی بڑا سارا گٹھڑا اٹھائے آگے بڑھ رہے تھے جو مجھے ٹکرایا تھا۔
اتنے افراد دیکھ کر حیرت سے بوکھلا گیا۔ افراد کی نسبت سامان زیادہ تھا۔ دو چارپائیاں ، ساتھ کالے رنگ کے بڑے بڑے گٹھڑے اور گھریلو سامان کے بیچ ایک کالے رنگ کی عورت بیٹھی تھیں۔ غور سے دیکھنے پر دو مزید موصوفہ کے ہم رنگ مرد نظر آئے۔ وہ ایک دوسرے سے انتہائی چلا چلا کر باتیں کر رہے تھے ، حالانکہ خاموشی تھی، آہستہ بولنے پر بھی آواز قابلِ سمع تھی۔ ان تینوں کے گلے پٹھے ہوئے تھے اور لغت ٹھیٹھ سرائیکی سے مماثلت رکھتی سندھی نما بلوچی تھی۔ یعنی سمجھ نہ آنے والی۔ کسی نے کندھا تھپتھپایا ” بیٹھ جاؤ سائیں” بڑے بڑے سیاہ بالوں اور گھنی داڑھی والا سفید کپڑوں میں ملبوس شخص مسکرا کر دیوار کے ساتھ پڑے رش زدہ بنچ پر کھچا کھچ بیٹھے لوگوں کے بیچ کوئی ایک فٹ خالی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ وہاں بنچ کے پیچھے پٹھڑی کا ڈیڑھ میٹر طویل حصہ لٹکاہوا تھا۔ اتنے رش میں اولاً تو بنچ ، بعد ازیں نشست کا ملنا ناممکن لگ رہا تھا۔ مگر شاء اللہ۔ بعض لوگ گٹھڑیاں کھول کر بیچ میں سے پتیلے نکالتے اور اس میں سے کھانا نکال کر کھارہے تھے۔ اور بعض ٹھیلے سے روٹی اور پکوڑے خرید رہے تھے۔
” سائیں! میرا بابا بولتا تا کہ کھوبسورتی دیکنا ہووے تے ٹرین پر جاؤ۔۔ سبحان اللہ” ساتھ بیٹھے اسی ملنگ نے سامنے سے آتی چند بے نقاب خواتین کی سمت اشارہ کر تے ہوئے اپنے حسین دلکش اقوال سے محفل لوٹنے کی کاوش کری، جس نے مجھے بیٹھنے کو کہا تھا۔ وہ مسلسل سگریٹ نوشی کر رہا تھا ۔ اور اس جیسے کافی سارے لوگ سٹیشن پر اور بھی موجود تھے۔ ” سائیں بابا! تم کہاں سے آیا ہے؟” میں نے اپنا حیران کن منہ سیدھا کیا۔ ” ڑے بابا! ہم مرغی پھام میں کام کرتا ہے۔ سآب اس مہینے کی تنکھوا نہیں دیا ناں۔ بولا کرایہ لو گھر کا چکر لگا لو ۔ تانکھوا پھرواپس آ جاؤ تب دونگا۔۔ گھر میں روپیہ کہاں سے دونگا؟” پتا نہیں کون سی داستان کھول دی جناب نے۔ میں نے تو کچھ اور پوچھا تھا۔ اچانک وہ کچھ سندھی میں چلایا اور اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا ”ٹن ٹن ٹن” کی آواز تین سیکنڈز کیلئے ایسے مجھے چیر گئی کہ جیسا صور پھونک دیا گیا ہو۔ مڑ کر دیکھا تو گھنٹی مجھ سے صرف ایک فٹ پیچھے دیوار پر لٹکتی ڈیڑھ میٹر پٹھڑی پر ابھی تک بجائی جا رہی تھی لیکن مجھے تو سنائی نہیں دے رہی تھی۔ سٹیشن پر شور اچانک بالکل ختم ہو گیا۔ کوئی ایک شخص بھی نہیں بول رہا تھا۔ سائیں نے مجھے اپنی طرف موڑا اور سامنے آتی ٹرین کی طرف اشارہ کیا۔اسکے ہونٹ ہل رہے تھے لیکن تھا خاموش۔ اُف۔۔ ٹرین بھی خاموش تھی۔۔ کہاں گیا اسکا مشہورِ زمانہ ” پآں ں” ۔ ؟ مجھے کچھ یوں لگا کہ میری سماعت سلب ہو چکی ہے۔ پھر دھیرے دھیرے یقین ہو گیا کہ ہاں! ہوچکی ہے۔۔۔
Train Travel
ریل کا سب سے آخری ڈبہ میرے سامنے رکا اور میں اس میں سوار ہو گیا۔ہیں؟ خدایا! یہ کیا چکر ہے؟ پہلے سماعت گئی اب لگتا ہے بینائی بھی گئی۔۔ یہ ایک فرش والا گندہ سا کمرہ تھا۔ اس کے دونوں کھڑکیوں والے اطراف میںلکڑی کے بنچ تھے اور درمیان خالی تھا۔سامنے ایک بنچ پر نشست زن ہو گیا۔ خاموشی بڑی پرسکون تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈبہ اَوور لوڈ ہو گیا۔ اب وہ خانہ بدوش خاندان بھی سوار ہو رہا تھا۔ اس نے اس اَوور لوڈ ڈبے میں اپنا سارا سامان گھسایا۔وہ تین نہیں، سات افراد تھے۔ رنگت کی وجہ سے پہلے مجھے صرف تین نظر آئے تھے۔چارپائیاں الٹی رکھی گئیں تا کہ کوئی طلبگار مسافر ان پر بیٹھ نہ سکے۔ ان پر اپنا باقی مانددہ بھاری بھرکم سامان رکھ دیا اور خود دروازے کے ساتھ کونے میں بیٹھ گئے۔ میرے کانوں سے مسلسل ‘ٹووں’ کی گونج بیس منٹ بعد ختم ہوئی تو احساس ہوا کہ یہاں تو سرگوشی بھی کان سے ہونٹ لگا کر چلا کر کرنا پڑتی ہے۔ ریل گاڑی کے روایتی ہارن کے بعد چھکا چھک کی آواز سنائی دیتے ہی سفر کی دعا پڑھی۔سیٹ کے پیچھے لگی کھڑکی سے باہر دیکھنے کا ارادہ کیا تو سالوں پرانا شیشہ بیرونی منظر کو نادیدہ کرنے لگا۔ مکمل طاقت کے استعمال سے کھڑکی کھولی تو یہ کوئی جنڈ سے پہلے کالا چٹا پہاڑوں میںبنے یکے بعد دیگے ریلوے ٹنل تھے۔ نیچے گھنے جنگل میں وسیع پاٹ کے ساتھ بالکل خاموش اور ساکن وسیع و عریض دریا کا منظر ، اسی دریا پر بنے ریلوے پُل سے شدید حسین ترین لگ رہا تھا۔ پانی میں چودھویں رات کے چاند کا عکس فطرتی حسن دوبالا کر رہا تھا۔ اچانک ڈبے کے پرلے کونے سے کسی بوڑھی اماں جی کے چلانے کی آواز آئی ” او روکو روکو۔ ریل روکو۔ میرے پاس کوئی اچانک سے یہ کالا بیگ چھوڑ گیا ۔ ہائے۔ ہائے ۔ ہائے اللہ ۔ او پتر جلدی گاڑی رکواؤ۔ یہ پھٹنے والا ہے” ماں جی مسلسل سر کے بال نوچ کر ماتھا پیٹ رہی تھیں۔ ان کے قریب بیٹھے تمام افراد فوراً جگہ کی عدم موجودگی کے باوجود لیٹ گئے۔ جنہیں جگہ میسر آئی وہ فرش پر اور باقی مانندہ ”فرش پر پڑوں” پر لیٹ گئے۔
میں جلدی سے اماں جی کے پاس گیا۔ انہیں خاموش ہو نے کو کہا۔ مگر وہ تھیں کے حواس باختگی میں چلا رہی تھیں۔ پورے ڈبے کے مسافر آیات ِ آخرہ اور استغفار کرنے لگے۔ اماں کو جبراً خاموش کروا یا” اماں جی! کچھ نہیں ہوتا۔ اس بیگ میں کچھ نہیں ہے۔ دیکھیئے میں ابھی اسے کھول کر آپکو دکھاتا ہوں” میں نے بیگ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک سے چلاتی ہوئی آوازیں آئیں: ” او بھائی صاحب! مروانا ہے کیا؟ آج کل بیگ کھولتے ہی پھٹ جاتے ہیں” ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس کلین شیو نوجوان فرش سے چمٹے ہوئے سر اٹھا کر بولا اور فوراً سر پھر سے فرش میں گھسانے کے لیئے محنت کرنے لگا۔ اس گفتگو کے دوران جونہی خاموشی ہوئی مخالف کونے میں کھڑا نوجوان ہنستے ہوئے بولا” بیگ مجھے دے دیں۔ میرا بیگ ہے۔ ایک تو پتا بھی نہیں چلتا اور ڈرامے بنا دیتے ہیں لوگ۔” ”ہائے وے! میں مرنے لگی تھی۔ تم نے بتایا کیوں نہیں کہ یہ تمہارا بیگ ہے؟ ” اماں غصے سے اس پندرہ برس کے لڑکے پر برس پڑیں۔’ میں کیسے بتاتا؟ آپ نے شور سے پوری ریل گاڑی سر پہ اٹھا رکھی تھی۔ میں گھنٹے سے چلا رہا ہوں یہ میرا بیگ ہے میرا بیگ ہے” اس کی بات سنتے ہی فرش برد مجاھدین اٹھ کر اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہو گئے۔
مجھے چائے کی شدید طلب محسوس ہورہی تھی ۔ سن رکھا تھا کہ گاڑی میں چائے فروش ہوتے ہیں۔ خدا جانے کہاں ہوتے ہیں؟ ہر سٹیشن پر محترمہ پانچ منٹ کیلئے رکتی تھیں۔ سواریاں اترتی گئیں۔ رات بارہ بجے تک سواریوں کی تعداد قابلِ شمار ہو گئی۔ لیکن شمار کون کرتا؟ ہم تو بے شمار لمحاتِ فراغت گزارنے میں مصروف تھے۔ داؤد خیل سٹیشن پررکے تو ایک خانہ بدوش نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ٹکٹ چیکر آ رہا ہے۔اتنے میں خاکی رنگ کی دو جیبیں دروازے سے داخل ہوئیں۔۔ سب اسی سمت دیکھ رہے تھے۔ ان جیبوں کو ایک قوی ہیکل پیٹ آگے کی جانب دھکیل رہا تھا۔ دو فٹ تک جب دو جیبیں ریل گاڑی پہ سوار ہوئی۔ میں ششدر رہ گیا کہ چکر کیا ہے؟ اتنے میں دو مزید جیب پہلے سے سوار شدہ جیبوںسے قدرے بلند اسی خاکی کپڑے کے ساتھ آویزاں ہوئیں۔ سر کو آگے کر کے غور سے دیکھا تو وہ ایک عدد شدید وسیع و عریض پیٹ نکالے ٹکٹ چیکر صاحب تھے۔ لال پچکاریاں پھینکتے ہوئے منہ میں مزید پان ٹھونستے جا رہے تھے ۔۔ یہ وہی ڈاکیہ نما وردی پہنے ہوئے تھے جو اٹک سٹیشن پر میں نے دیکھے تھے۔ ساری جیبوں میں گنجائش سے دگنا سامان تھونسا ہوا تھا۔ کافی سارے سوالات کا جواب یہ موصوف تھے جو اگر پیدا نہ ہوتے تو کم از کم بھی ان کے پانچ بھائی بطریق ِ احسن آسانی سے ولادت پا سکتے تھے۔ محترم نے سب کے ٹکٹ چیک کیئے اورخانہ بدوشوں کے پاس انکی ایک اونچی سی گٹھڑی پر تشریف فرم گئے۔
”بی بی! سامان کا ٹکٹ دکھا؟” جناب کرخت لہجے میں گویا ہوئے۔” یہی ہے سائیں” خانہ بدوش خاتون بے بسی سے ٹکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔”یہ تو تیرا ہے بی بی۔ سیانی مت بن۔ جلدی سامان کا ٹکٹ دکھا۔ نہیں تو پولیس کو بلواؤں گا” ٹی سی صاحب تو لڑنے کو آ رہے تھے۔” وے سائیں۔ پولیس کو بلا یا ڈریور کو بلا۔ ٹکٹ یہی ہے” خاتون گفتگو کم اور اشارے زیادہ فرما نے لگیں۔ ”اچھا اب ٹکٹ لے لو ۔ شاباش پانچ سو پچاسی روپے دو” ٹی سی نے ایک جیب سے بڑا سارا رجسٹر نکال لیا۔ ”ہائے وے مٹھا! اے ہیس کملے نوں ویکھ۔ ساڈے کول ہِک پیسہ نئیں تے پنچ سو؟؟” خاتون شرافت کی اداکاری ترک کر کے دونوں بازوؤں سے کف ہٹا کر چلانے لگی۔ ” میں پولیس کو بلوا لوں گا اور وہ ہزار سے کم میں نہیں چھوڑیں گے تمہیں” خاتون کے اس رویئے سے ٹی سی بوکھلا گیا۔ ” تو پولیس بلوا۔ فوج بلوا۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔ بس” خاتون یہ کہہ کر پھر سے فرش پر اپنے فرش کشا بستر پر لیٹ گئی۔ٹی سی نے مڑ کر ڈبے میں دیکھا تو تمام لوگ اس کی جانب ٹُکر ٹُکر دیکھ رہے تھے۔شرم کے مارے اس نے پھر سے خاتون کو اٹھایا۔ ” وے تینوں شرم نہیں آوندی؟ تیڈے بہن بہرا کوئی نی؟” خاتون نے جان خلاصی کا دوسرا حربہ آزمایا۔
دوسری جانب بیٹھے ساتھی خانہ بدوش نے ایک سو کا نوٹ پکڑا کر جان چھڑائی۔ ٹکٹ چیکر جس اونچی سے گٹھڑی پر بیٹھا تھا وہ اب سب سے چھوٹی لگ رہی تھی۔ خاتون سے یہ نقصان برداشت نہ ہوا ” میرا سارا سامان تے بھن دیتا ای وے کنجرا” میں نے سر کے نیچے سے بیگ نکال کر منہ پر رکھااور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک سے ٹھنڈکا شدید احساس ہوا۔ کھلی کھڑکی سے بارش کی بوندیںآنے لگیں۔ سردی شدت اختیار کرتی گئی۔ تمام سواریوں نے پتا نہیںکہاں سے چادریں نکال کر اوڑھ لیں۔ میں سعودی مندی خور کو انتہائی غلیظ الفاظ میں یاد کر رہا تھا جنہوں نے مجھے گھر سے نکلتے وقت ہاف سلیو ٹی شرٹ پہننے کا مشورہ دیا تھا۔ سردی سے بری حالت ہو رہی تھی۔ جھولی میں رکھے بیگ کو اٹھا کر اپنی نشست پر رکھا اور خود اٹھ کر کھڑکی بند کرنے لگا۔ مجھے اٹھتا دیکھ کر کئی عازمین سیٹ کی جانب لپکے لیکن میں نے بیگ رکھ کر منادی کی کہ نشست خالی نہیں۔ کھڑ کی سنسکرت دور کے کسی اناڑی شخص نے بنائی ہوئی تھی جس میں مکمل بند ہونے والا فنگشن ہی نہیں تھا۔ سنسکرت اور اسکے تمام ہم عصروں کو انتہائی ” beep . beep” القابات اور خطابات دیئے اور ایک بار پھر سے کبھی نہ بند ہونے والی کھڑکی کے ساتھ ایویں ہی زور آزمائی کرنے لگا۔ ٹرین آگے چلنے کے ساتھ ساتھ دائیںبائیں بھی جا رہی تھی۔
Jacobabad Train Travel
اوپر نیچے قدرے زیادہ ہو رہی تھی۔ منزل پر جلد پہنچنے کیلئے سرعت رفتاری کی دعا کرتا ۔ جونہی تیز ہوتی تو بارش اور ہوا تیزی سے اندر آتی ، چنانچہ پھر سے رفتار آہستہ رہنے کی دعا کرتا۔ بے بسی اتنی تھی کہ ایسے میں تو کافر کو بھی آتا ہے خدا یاد۔میں نے بھی ہاتھ اٹھائے پر سمجھ نہ آئی کہ دعا کیا کروں؟ ۔ خانہ بدوشانِ جہاں فزاؤں کی ٹرین میں رہائش کے ساتھ ہی کوا ڑ تھا۔ اسکی کنڈی پیدائشی ناپید تھی۔ پانی نے ٹرین میں سجا انکا سارا گھر بار پانی پانی کر دیا۔ وہ زور لگا کر دروازہ بند کرتے اور ایک ایک کر کے سارا سامان اسکے پیچھے رکھ کر اسے بند رہنے پر مجبور کرتے لیکن ڈھیٹ کہیں کا۔۔۔ دھڑام سے کھلتااور انہیں اٹھاکر پرے پھینکتا۔ کچھ انکی بے بسی پر ہمدردی ظاہر کرتے اور کچھ میری طرح کے گستاخ اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ پاتے۔ہر آمدہ سٹیشن سواریوں کی تعداد میں کمی لا رہا تھا۔ حتی کہ ڈیرہ غازی خان سٹیشن پر پہنچ کر ہمارے ڈبے میں سواریوں کی تعداد پہلے کی نسبت دس فیصد رہ گئی تھی۔ میں نے مردم شماری کی بارہا کوشش کی لیکن اتنے زیادہ لوگ تھے کہ شمار نہ کر پایا۔
میں سردی سے کپکپا رہا تھا۔ سامنے دیکھا توفرش پر ڈیرہ جمائے ایک خانہ بدوش اپنے بیٹے کو ایک گندے مٹی سے اٹے لحاف میں سلا رہا تھا۔ اس پورے خاندان کے پیر ننگے تھے۔خواتین کے الجھے ہوئے بڑے بڑے بھیانک بال تھے۔ مردوں کے خواتین کی نسبت زیادہ لمبے بال تھے۔ بالآخر بچہ سو گیا اسے میرے پاؤں کے پاس لا کر سلا دیا۔ جام پور پہنچے تو سواریاں صرف پندرہ سے بیس رہ گئیں۔باقی سارے اتر گئے۔ بچہ جاگ گیا اور ماں نے اٹھا لیا۔ میں لیٹا ہوا تھا وہ گندا لحاف میرے بالکل پاس پڑا تھا۔ سردی سے بری حالت تھی دل چاہ رہا تھا کہ لحاف میںگھس جاؤں لیکن ایک تو اسکی حالت ایسی تھی کہ بدبو طبیعت صاف کر رہی تھی اور تھا بھی معصوم بچے کا۔ میں نے اس خانہ بدوش کی جانب سرسری نگاہ ڈالی تو وہ بڑی شفقت سے مسکرایااور اشارہ کرتے ہوئے بولا ” سائیں ! اوڑھ لولحاف۔”میلے کپڑوں، گندے جسم ، میلے کچیلے بالوں اور بدبو سے اٹے اس شخص کا پاک صاف اور اخلاص بھرا لہجہ فوراً میرے دل میں گھر کر گیا۔ میں بھی مسکراتے ہوئے لحاف میں گھس گیا۔ شدید نیند کے باوجود شدید سردی کی وجہ سے نہ سو پایا تھا۔ لحاف میں گھستے ہی وہ سکون ملا کہ جو پلنگ پر کمبل میں بھی کبھی میسر نہ آیا۔ آنکھ کھلی تو راجن پور تھے۔تمام خانہ بدوش اتر رہے تھے۔ میں نے امانت لوٹائی اور شکریہ ادا کیا۔
بھوک سے نڈھال ہو رہا تھا۔ کھانے کے ٹھیئے کی طرف اس لیئے نہیں جا رہا تھا کہ ٹرین کبھی آگے کو چلتی اور کبھی پیچھے کو۔ رات سے اب تک کئی مرتبہ میں دیکھ چکا تھا کہ انجن کو کبھی دوسری سمت لگا دیا جاتا تھا۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم پیچھے کو سفر کر تے کبھی آگے کو۔ لیکن منازل مطلوبہ ہی آویزاں ہوتیں۔ چونکہ میری رہائش گاہ جس ڈبے میں تھی ریل کے آخر میںوقوع پذیر تھا اور سمت کی تبدیلی کی صورت میں اول ترین واقع ہوتا تھا۔ اس لیئے مجھے کھٹکا لگا رہتا کہ کہیں کھانے کے لئے جاؤں اور میری رہائش گاہ روانہ ہو جائے۔ میں نیچے اترا اور ساتھ چسپاں دوسرے ڈبے کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ وہ تو بہترین قسم کی نشستوں والے کمروں سے بھرا پڑا تھا۔ معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ میں تو کسی مال بردار نما شے پہ اپناسارا سفر گزار چکا ہوں۔ شومی ء قسمت کا مارا میں اس ڈبے میں سفر کر گزرا جس کے سوار اکانومی کلاس کو بھی تمنائی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ کرایہ نامے پر کندھ کوٹ سٹیشن کے بعد جیکب آبادکا نام تھا۔ جو نہی کندھ کوٹ سے گزرے تو میں منتظر بے تاب نگاہیں دوڑا کر جیکب آباد سٹیشن کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھتا رہا۔ ساتھ ہی لیٹے ایک چاچا جان سے پوچھا ” انکل جی! جیکب آباد کتنا ٹائم لگے گا؟” ” ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ” چاچا جان نے اطمینان سے جواب دیا۔ طویل سفر سے اب جان جانے لگی۔ڈبہ خالی ہونے کو تھا۔ ہر سمت مٹی ہی مٹی تھی۔ گرد نے حالت غیر کر رکھی تھی۔اچانک سے کسی سٹیشن پر گاڑی رکی اور خالی ڈبہ کھچا کھچ بھر گیا۔ساتھ ہی ایک پولیس والا بھی سوار ہو گیا۔ اس نے سب سے پیسے لیئے گاڑی چلتے ہی اتر گیا۔میرے ساتھ ایک نوجوان لڑکا فیملی کے ہمرا ہ بیٹھ گیا۔ ” بھائی جان! پولیس والے نے آپ لوگوں سے پیسے کیوں لیئے؟” میں اپنا تجسس مٹانا چاہ رہا تھا۔ ” کِراپشن ہے ناں بائی۔ہم لوگ ٹکٹ نہیں لیتا ناں۔تھوڑا پیسہ پولس والا کو دے دیتا ہے ناں بائی۔ ایسا ای کام چلتا ہے ” بائے بائے کہہ کر نوجوان نے میرے دوسرے سوال کا گلہ گھونٹ دیا۔ ” تمہارا نام کیا ہے بائی؟” موصوف نے مسکرا کر ہاتھ بڑھا دیا۔
Jacobabad
” عاقب” ”میرا نام ہے غنی بائی” غنی صاحب کے اشارے اور گفتگو عجیب نسل کی تھی۔ ” میرے ساتھ پھیملی بھی ہے ناں بائی” ” اچھا تو غنی بھائی کیا کرتے ہیں آپ؟” ” میں دس کلاس میں پڑھتا ہوں ناں بائی”عجیب اشاروں کے ساتھ ساتھ گویا ہوئے۔ ” جیکب آباد کتنا ٹائم لگے گا؟” ڈھکے چھپے لفظوں میں اکتاہٹ کا اقرار کر رہا تھا میں۔ ” دو کلاک لگے گا۔ یعنے ایک گھنٹہ ٹھُل تک، اور ایک کلاک وہاں سے آگے” شدید سوچ بچار کے بعد غنی بائے نے بتایا۔ ” پہلے کندھ کوٹ میں بہت ڈاکو تھا۔ اب نیا ایس پی آیا ہے۔ چھوٹا بچہ ہے ابھی ۔۔ عمر طفیل۔۔۔ بہت نڈر ہے بائی۔ اب کندھ کوٹ کو جنت بنا دیا ہے بائی۔ میں بھی اسکی طرح کا بننا چاہتا ہوں۔۔ کیا کروں بائی؟” موصوف کسی عمر طفیل نامی ایس پی سے شدید متاثر تھے ۔ اور ان جیسا بننے کے شدت سے منتظر تھے۔ ” کم بولا کریں اور صرف ضرورت پڑنے پر بولا کریں” میں نے اخلاص بھرا مشورہ دیا۔ ” کیا بولا بائی؟ مجھے سمجھ نہیں لگا” میں نے اس کے بعد جناب کی جانب بالکل دیکھا بھی نہیں کہ ابھی پاکستان کے موجودہ حالات زیر ِ بحث آ جائیں گے جب کہ میں تھکاوٹ سے نڈھال تھا۔ ” ام چاہتا ہے کہ ہمارا نام اخبار میں آئے۔ ام مشہور ہو جائے بائی” غنی بائے اب تو جیسے جبراً مجھ سے گفتگو کرنے لگے۔ ” غنی بھائی! آپ بے فکر مند رہئے۔ آپکا نام آخبار میں ضرور آئے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں” میں انکے تاثرات دیکھنے لگا۔ ” واللہ؟؟ میرا نمبر لکھو۔ جب اخبار میں نام آیا۔۔ ضرور بتانا عاقب بائے” جناب نے نمبر دیا ۔ اور پھٹی ہوئی آنکھوں سے مزید سوالات کرنے لگے۔۔ اتنے میں جیکب آباد جنکشن پر ٹرین کی ” پآں۔۔” نے مجھے آزادی کی نوید سنا دی۔ غنی بائے کے ساتھ سیلفی لی اور یوں سٹیشن کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ دیا۔