سفر نامہ پاکستان کی روداد

Pakistan

Pakistan

کچھ عرصہ قبل اپنے وطنِ عزیز پاکستان میں طویل ترین چار مہینے قیام کا موقعہ مِلا جس کے دوران کراچی اور پنجاب کے دوست احباب کے علاوہ زیادہ وقت عام عوام سے خوب ملاقات رہی اور سب کے ساتھ مل جل کر خوب گھومنے کا موقع بھی میسر آیا گھومنے سے یہاں مراد پاکستان کے عام انسانوں کو قریب سے دیکھنے کی خواہش تھی یہ الگ بات ہے کہ عام عوام کے حالات دیکھ دیکھ کر دل اور دماغ بھی گھوم کر رہ گیا۔

کراچی شہر کے حالات کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا اور وہ داستان یورپ اور ہالینڈ کے اردو اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہے جن احباب نے میرے اس مضمون کو پڑھا ہوگا وہ تفصیل سے اگاہ ہونگے اور جن احباب کو وہ مضمون پڑھنے کا موقع نہ مل سکا ان کے لیئے عرض یہ کہ اس مضمون کی وساطت سے میں نے اگاہ کیا تھا کہ شہر کراچی عملی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں رہا بلکہ اس شہر کے عوام کو مختلف سیاسی پارٹیوں نے یرغمال بنا کر اپنا اپنا قبضہ جما لیا ہے اور جس طرح وہ سیاسی جماعتیں کراچی کو اپنے اپنے مفاد کے لیئے استعمال کر رہی ہیں اس کی وجہ سے کراچی میں پاکستان، پاکستانیت اور انسانیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ حیوانیت اور دہشت چھا چکی ہے۔

اس کے بعد اپنے آبائی علاقے گجرات اور پنجاب کے دیگر مختلف علاقوں کے عوام سے قریبی اور تفصیلی ملاقاتوں نے آج کا مضمون قلمبند کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ پاکستان سے واپس ہالینڈ پہنچنے کے بعد دل اور دماغ میں کچھ سوالات نے مسلسل ڈھیرے جمائے ہوئے ہیں اور سوچا کہ کیوں نہ ان سوالات کو آپ کے ساتھ شیئر کر لیا جائے ؟ ان سوالات کا مختصر پسِ منظر کچھ یوں ہے۔

Lala Musa Fruit Market

Lala Musa Fruit Market

ایک دن صبح صبح شہر لالہ موسیٰ کی فروٹ منڈی میں اپنے اہلِ خانہ کی فرمائش پر سٹوبری خریدنے کے لیئے جانے کا اتفاق ہوا جہاں کاروباری حضرات کے بے ہنگھم رش نے ہمیں آرام سکون کے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے لیئے ایک طرف کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا اس دوران ہم یہ ہی سوچتے رہے کہ کون سے بیوپاری سے سٹوبری خریدی جائے . . . . . خدا خدا کر کے ایک باریش اور سر پر ٹوپی پہنے ہوئے سٹوبری فروش کے پاس جانے کا ارادہ اس نیت سے کر لیا کہ وضع قطع کے مطابق یہ شخص ہماری آنکھوں کو ایک اچھا مسلمان شخص نظر آ رہا تھا جب سلام عرض کرنے کے بعد ہم نے سٹوبری خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور ایک ٹوکری کی قیمت معلوم کی تو اس باریش انسان نے قیمت بہت زیادہ طلب فرمائی . . . . . ہم نے جواب میں عرض کیا کہ محترم آپ جو قیمت طلب کر رہے ہیں وہ تو پرچون کی قیمت سے بھی کا فی زیادہ ہے اگر ممکن ہو تو کچھ رعایت عنایت فرما دیں۔

ہماری زبان سے سے فقرہ شاید ابھی تکمیل کے مراحل میں ہی تھا کہ ان باریش دکاندار صاحب نے ایسی گفتگو فرمانی شروع کر دی کہ ہمیں احساس ہوا اور یہ کہنا بھی پڑا کہ بطور گاہگ آپ ہمیں یہ بھی حق دینے کو تیا ر نہیں کہ ہم اپنے لیئے رعایت کی درخواست کر سکیں ؟ آپ کا جواب سادہ سا ہونا چاہیے کہ ہم اس قیمت سے کم داموں پر اپنے مال کو فروخت کر سکتے ہیں یا نہیں۔

ایک کاروباری اور ایک باریش انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے گاہک کے ساتھ غیر اخلاقی گفتگو کرنا شروع کر دے اور ہتک آمیز رویہ اپنائے یہ تو پوری دنیا میں کاروباری اصولوں کے منافی ہے اور نہ ہی ان دکاندار صاحب کی وضع قطع سے مطابقت رکھتا تھا . . . . . اس وقت سے ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کا ایک باریش انسان جو اپنے سر کو ٹوپی کے ساتھ ڈھانپے ہوئے ہے لیکن . . . . اخلاق کا عملی مظاہرہ کرنے میں کتنا کمزور ہے۔

Election

Election

اس سے پہلے وطن عزیز میں الیکشن اور جمہوریت کے نام پر الیکشن کے دن مختلف پولنگ بوتھ پر اپنی مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیئے ہم کیا کیا نہیں کرتے ان جمہوری ڈرامے بازیوں کو بھی بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع مل چکا تھا . . . . وقت گزرنے کے ساتھ وہ انتخابی ڈرامے بازی آہستہ آہستہ میڈیا کی زینت بنتی جا رہی ہیں اور نام نہاد جمہوریت کے ثمرات سے عام پاکستانیوں کی پہلے جمہوری دور کی بانسبت زیادہ زور کے ساتھ چیخیں نکلنا شروع ہوچکی ہیں۔ وہ ملک جہاں پانچ وقت آذان کی آواز ہر انسان کے کانوں میں شدت سے سنائی دیتی ہے . . . . . شاید اس آواز کو سمجھنے والے پاکستان میں بہت ہی کم لوگ رہ گئے ہیں . . . . . نہایت ہی معذرت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ مساجد میں جانے والے بھی زیادہ تر لوگ بلند اخلاق پر فائز نہیں ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دینے والے بن چکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ نہایت زوال پذیر ہو چکا ہے اورعام انسان اور غریب عوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہو رہا اس کی تفصیلات آئے دن بذریعہ میڈیا ہم سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔

یورپ کے آزاد معاشرے میں رہنے والے پاکستانی احباب بھی اگر اجازت دیں تو تھوڑی کی معاشرتی اور اخلاقی صورتحال پر اس نیت سے گفتگو کرنے کی اجازت عنایت فرما دیں کیونکہ بحثیت مسلمان ہمیں سب کو اللہ اور اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کرنی چایئے . . . . . . کیونکہ روزِ محشر ہمیں جوابدہ ہونا ہے . . . . کہیں ایسا نہ ہو اس دن ہم اللہ عزوجل کے سامنے شرمندہ ہو جائیں اور اس وقت ہماری شرمندگی بھی ہمیں بچا نہ سکے گی اور ہم خسارے اور گھاٹے والے لوگوں میں شمار ہو جائیں گے۔

دست بدستہ اور نہایت ہی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا اس آزاد معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں ہر انسان عزت کے ساتھ وقت گزار رہا ہے اور دو وقت کی روٹی باآسانی میسر ہے، کھانے پینے کی ضروری نعمتوں سے ہمارے فریج بھرے ہوئے ہیں . . . الحمدوللہ لیکن پھر بھی اخلاقی کمزوریوں نے ہمیں اپنا اسیر بنایا ہوا ہے زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر صرف اس بات کا تذکرہ کروں گے جس کا مشاہدہ آئے دن اور ہر شخص با آسانی
کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر کسی تقریب میں شرکت کر کے اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ اپنی پلیٹ میں کھانا اس قدر لے لیتے ہیں کہ پیٹ بھرنے کے بعد کافی مقدار پھینک دی جاتی ہے . . . . . . . . کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارا یہ عمل اللہ کی نظر میں کتنا پسندیدہ ؟ یورپ کے آزاد ماحول میں رہتے ہوئے اور مسلمان ہونے کے باوجود بھی ہم اپنی ذات کے خول سے نکلنا پسند نہیں کرتے . . . . انسان کو انسان سمجھ کر ملنے سے پہلے ہماری دلچسپی ذات اور برادری ہوتی ہے۔ بلکہ غربت اور امارت بھی ہے ! کبھی ہم نے سوچا . . . . . ہمارے گفتگو کے موضوعات اصلاحی ہونے کی بجائے گلے شکوے اور غیبت کے زمرے میں آتے ہیں ؟ یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جن کو ہر با شعور مسلمان جانتا ہے لیکن ان پر عمل کرنے میں کتنی دِقت ہوتی ہے اور ہم کمزور واقع ہو جاتے ہیں۔

حالانکہ علمی اعتبار سے ہمیں ان بنیادی باتوں کے فوائد اور نقصانات کا بھی علم ہے آج کی تحریر لکھتے وقت ذہن میں معاشرے کی اخلاقی خرابیاں ہیں کسی بھی شخص کی کردار کشی ہر گز مقصود نہیں اس لیئے کہ ان خرابیوں کی زد میں ہمارے بہت زیادہ لوگ ہیں اور سب کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تجربات ضرور ہیں لہذا ان خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا کر اگر اللہ عزوجل اور پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل ہو جائے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

ہمیں اپنے پاکستانی معاشرے کو بہتر بنانے کے لیئے قول و فعل کا تضاد ختم کرنا ہوگا، علاقائی اور ذات برادری کے خول سے باہر نکلنا ہوگا بطور مسلمان آپس میں مفاد پرستی سے پاک بے لوث تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دین ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں سے استفادہ کرنے کے لیئے غیبت جیسی تباہ کن عادت سے کنارہ کشی کرنا ہوگی ان تمام بیان کردہ خرابیوں کو صرف اور صرف اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے چھوڑنا ہوگا ہمارے آپس میں بات چیت کے موضوعات ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرنا ہونا چاہئے اختلافات کی بجائے بھائی چارے اور محبت کو فروغ دینا چاہئے یہ بات ہر وقت یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر انسان پر دو فرشتے مقرر کیئے ہوئے ہیں ان کام ہمارے ہر عمل کو قلمبند کرنا ہے اور روز محشر ہم اپنے اللہ کے حضور جوابدہ ہونگے لہذا ہمیں اپنے قول وفعل اور کردار کو ایسا نمونہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے جس کی وجہ سے روز محشر آسانیاں ہمار ا مقدر ٹھہریں۔

اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اچھی باتوں کی پریکٹس کرنے کی کوشش شروع کردیں تو ہمارے معاشرے میں بھی نکھار آنا شروع ہوجائے گا حقوق و فرائض میں ایک تعاون پیدا ہو جائے گا ہمارا گھر ہمارا محلہ ہمارا شہر اور ہمارا وطن عزیز بھی امن اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے کیونکہ انسان کے اچھے کردار میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی طاقت رکھی ہے . . . . یہ انسانی کردار ہی تھا جسے پیش فرما کر اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا کام شروع کیا اور آج روئے زمین کی تمام انسانیت اس عظیم خلق کی تعریف کرنے پر مجبور ہے بحثیت امتی ہمیں بھی وہ طریقہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنا کر اپنی معاشرتی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا یہی بہترین رول ماڈل ہے جس کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھ کر دنیا اور آخرت میں کامیابی یقینی ہے پیارے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رول ماڈل بنائے بغیر ایک اچھے معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

تحریر : امانت علی چوہان دی ہیگ ہالینڈ