اسلام آباد (جیوڈیسک) پرویز مشرف کے خلاف جاری سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے مارچ 1956 سے مقدمات کھولنے سے انکار کردیا ہے ، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کا اختیار سماعت صرف اس کیس تک محدود ہے۔
آج کی سماعت میں پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے تین نومبر کی ایمرجنسی میں شریک تمام افراد کوٹرائل میں شامل کرنے کامطالبہ کیا سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام کے صرف ایک ملزم کو نشانہ نہیں بنایاجاسکتا۔
3 نومبرکے نوٹ یفیکشن میں جن سے مشاورت کی گئی ان کا ذکر موجود ہے ، مشورہ دینے والوں، نوٹی فیکیشن تیار کرنے والوں اور اس پر عمل کروانے والوں کو بھی ٹرائل میں شامل کیا جانا چاہیے ، بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان افراد سے انکوائری کا ذکر تک موجود نہیں ، نہ ہی ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے لائی گئی ، انکوائری ٹیم کے حسین اصغر کااختلافی نوٹ بھی تحقیقاتی رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
بتایا جائے اختلافی نوٹ چھپانے کا مقصد کیا تھا ، بیرسٹر فروغ نسیم نے استدعا کی کہ عدالت تحقیقاتی رپورٹ اور اختلافی نوٹ کی نقل فراہم کرنے کاحکم دے ، قانون کے مطابق معاونت کرنے والوں کا اکٹھا ٹرائل ہونا ضروری ہے ، ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلامیہ میں جن عہدیداروں کا ذکر کیا ان کے نام فراہم کیے جائیں۔
استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ ان افراد سے مشاورت نہیں کی گئی۔اس پر استغاثہ کے وکیل بیرسٹر اکرم شیخ نے کہاکہ عدالت اس معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے ، بیرسٹر فروغ نسیم مفروضے پر دلائل دے کر عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، یہ اس درخواست کا ذکر کر رہے ہیں۔
جس کا فسانے میں ذکرہی نہیں، فروغ نسیم تصوراتی عمارت تعمیر کر کے عدالت کو الجھانا چاہتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ مزید دوتین دن ضائع ہو سکیں، اس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو چلانا ہماری ذمہ داری ہے آپ کی نہیں ، عدالت نے کہاکہ استغاثہ کی تقرری کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ اٹھارہ اپریل کو سنایا جائے گا۔