اسلام آباد (جیوڈیسک) غداری کیس کی سماعت کے دوران وکیل استغاثہ اکرم شیخ اور سابق صدر کے وکیل رانا اعجاز کے درمیان جھڑپ ہوگئی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ کہ وکلا نے جیسا رویہ اختیار کیا ہے اسکول کے بچے بھی ایسا نہیں کرتے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کررہی ہے، سماعت کے آغاز پر ہی استغاثہ ٹیم کے سربراہ اکرم شیخ اور سابق صدر کے وکیل رانا اعجاز کے درمیان جھڑپ ہوگئی، اکرم شیخ نے الزام عائد کیا کہ پرویز مشرف کے وکیل رانا اعجاز نے ان پر حملے کی کوشش کی، جس پر جسٹس فیصل عرب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جیسا رویہ وکلا کی جانب سے اختیار کیا گیا ہے کالج اور اسکول کے بچے بھی ایسا نہیں کرتے، وکلا آفیسرز آف دی کورٹ ہیں انہیں عدالتی وقار کا احترام کرنا چاہئے۔
سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 6 صرف سنگین غداری کی تعریف سےمتعلق ہے، اس کے تحت خصوصی عدالت میں کارروائی صرف سویلین افراد تک ہی محدود ہے، آئین شکنی کا جرم اگر کوئی فوجی کرے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فوجی ملازم کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہی ہوتا ہے۔
سابق آرمی چیف کا صرف آرمی ایکٹ کے ذریعے ہی ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1977 میں ترمیم کےذریعے سنگین غدرای کے جرم کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا، آرمی ایکٹ میں بھی سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی شقیں موجود ہیں جن کی موجودگی میں پرویز مشرف کے خلاف کسی غیر فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا۔