اسلام آباد (جیوڈیسک) غداری کیس میں پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سابق صدر اٹھارہ فروری کو عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ عدالت نے پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو سہہ پہر چار بجے سنایا جائے گا۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت شروع کی تو پرویز مشرف کے وکلاء کی جانب سے خصوصی عدالت میں درخوست دائر کر دی گئی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ متفرق درخواستوں کا فیصلہ کرنے سے پہلے کوئی اور ہدایت جاری نہ کی جائے، وکلاء کا موقف تھا کہ عدالت کے دائرہ کار، ججوں کی جانبداری سے متعلق متفرق درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، مشرف کے مقدمے کو ملٹری کورٹ میں منتقل کرنے سے متعلق بھی فیصلہ کیا جائے، مشرف کے وارنٹ کی تعمیلی رپورٹ ایس پی کیپٹن (ر) محمد الیاس نے خصوصی عدالت میں جمع کرائی۔
کیپٹن ریٹائرڈ محمد الیاس نے ہی وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔ مشرف کے وکیل انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ مشرف کی بیرون ملک علاج کی درخواست کو بغیر سنے خارج کر دیا گیا، ہم نے باضابطہ طریقہ کار کے تحت درخواست جمع کرائی تھی، انور منصور نے کہا کہ ہم پہلے ہی سے عدالت کے دائرہ اختیار پر بحث کر رہے ہیں، عدالت پہلے اپنے اختیارات کا تعین کرے، ججوں کی جانبداری سے متعلق بھی ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
انور منصور نے کہا کہ ابھِی تو دلائل مکمل نہیں ہوئے تھے کہ عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے، آئینی طریقے سے اور قانون کے مطابق عدالت کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا، ضابطہ فوجداری سمیت کوئی دوسرا قانون اس مقدمے پر لاگو نہیں ہو سکتا، احمد رضا قصوری نے سماعت کے دوران بات کرنے کی کوشش کی۔
عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے انہیں بیٹھنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ گزشتہ 3 سماعتوں پر وکلاء صفائی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر چکے ہیں، عدالت تو آپ کو سننا چاہتی تھی، جسٹس فیصل عرب نے انور منصور سے کہا کہ اگر آپ سمجھتے تھے ان درخواستوں کا فیصلہ پہلے ہونا تھا تو دلائل دیتے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت غصہ نہیں کر رہی اس میں ہمارا ذاتی مفاد نہیں، انور منصور نے کہا کہ میں سپریم کورٹ میں تھا اور یہاں استغاثہ کے وکلاء کو سنا گیا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پہلے آپ نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست کی وجہ سے سماعت ملتوی کرائی، دوسرے دن ہم نے میڈیکل رپورٹ پر استغاثہ کے دلائل سنے، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ انور منصور صاحب کیا وارنٹ کی تعمیل کرائی گئی ہے۔
انور منصور نے کہا کہ وارنٹ کی تعمیل تو ہو گئی ہے لیکن تحفظات کے ساتھ، ہم آج ایک استثنٰی کی درخواست دائر کر رہے ہیں، خصوصی عدالت نے انور منصور کو متفرق درخواستوں پر دلائل دینے کی اجازت دے دی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اختیارات نہ ہوں تو عدالت کس طرح اس کیس کا فیصلہ کر سکتی ہے کیا ہمیں اس کا علم نہیں، انور منصور نے کہا کہ اگر فرد جرم پہلے عائد کر دی گئی اور بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ عدالت کا اختیار نہیں تو عالمی سطح پر مشرف کی ساکھ کو نقصان ہوگا، انور منصور نے کہا کہ وہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس موقع پر مشرف کے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں، عدالت اختیار سماعت کا فیصلہ کر لیں تو مشرف عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں گے، انور منصور نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 556 کے تحت آپ خود کارروائی روک سکتے ہیں، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم میرٹ پر حتمی فیصلے سے پہلے اختیار سماعت کا فیصلہ کریں گے، انور منصور نے کہا کہ ایک مرتبہ فرد جرم عائد ہو جائے تو عدالت کو اختیار سماعت حاصل ہو جائے گا۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر بعد میں کسی مرحلے پر ثابت ہو جائے کہ اختیار سماعت نہیں ہے تو کیا میرٹ پر فیصلہ کرنا ممکن ہوتا ہے، انور منصور نے کہا کہ میڈیا میں مشرف کو عالمی سطح پر غداری کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر بعد میں کسی مرحلے پر ثابت ہو جائے کہ اختیار سماعت نہیں ہے تو کیا میرٹ پر فیصلہ کرنا ممکن ہوتا ہے، انور منصور نے کہا کہ میڈیا میں مشرف کو عالمی سطح پر غداری کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جب تک کسی کو سزا نہ ہو جائے اسے مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
فرد جرم عائد بھی ہو جائے تو اختیار سماعت نہ ہونے کے باعث مقدمہ متعلقہ عدالت کو منتقل ہو جاتا ہے۔انور منصور نے کہا کہ اس دوران ہونے والی کارروائی عدالتی دائرہ اختیار کے بغیر قرار پائے گی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر کوئی جج مجرم کو کسی ایک کیس میں سزا دے تو کیا وہ اس مجرم کے ہر کیس سے الگ ہونے کا پابند ہے۔
انور منصور نے کہا کہ اس کیس میں وہی حقائق زیر سماعت ہیں جن پر آپ نے نااہلی کیس کا فیصلہ کیا،سابق چیف جسٹس نے خصوصی عدالت کے لیے ایسے ججوں کو چنا جو اس معاملے میں دلچپسی رکھتے ہیں، یہ تعصب کی واضح مثال ہے جس کے بعد ان ججوں کو سماعت سے الگ ہو جانا چاہئے۔
انور منصور نے کہا کہ تعصب اور جانبداری ایک کیفیت کا نام ہے جس سے فیصلے پر اثر پڑتا ہے، جسٹس فیصل عرب کو 2007 میں مشرف نے حلف دینے سے انکار کیا، جسٹس فیصل نے انتخابات لڑنے سے متعلق مشرف کے خلاف درخواست پر فیصلہ دیا، پرویز مشرف کو اس وقت تک نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا تھا جب تک ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہ ہوتا، یہ حقائق جسٹس فیصل عرب کا مشرف کے خلاف تعصب ظاہر کرتے ہیں، انور منصور نے کہا کہ بینچ کے سربراہ مشرف کے حوالے سے پہلے ہی ایک سوچ رکھتے ہیں ، یہ حقائق جسٹس فیصل عرب کا مشرف کے خلاف تعصب ظاہر کرتے ہیں۔
جسٹس فیصل عرب کو عدالت کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا، نااہلی کا فیصلہ 3 نومبر کے اقدامات کی بنیاد پر کیا جو موجودہ مقدمے میں بھی الزام ہے، جسٹس فیصل پہلے ہی سوچ رکھتے ہیں کہ مشرف نے آئین مسخ کیا، مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت میں ملزم کے وارنٹ گرفتاری سے دستبرداری کی درخواست دائر کر دی۔ مشرف کے وکلاء نے استدعا کی کہ مشرف کے وارنٹ گرفتاری واپس لیے جائیں۔
مشرف کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے اپنے دائرہ اختیار کے بغیر یہ فیصلہ دیا۔انور منصور نے کہا کہ ہمیں سنے بغیر فیصلے دیے جا رہے ہیں جبکہ ریاست کے خلاف جنگ کرنے والوں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت اپنے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب حکم جاری کرے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ سماعت کے اختتام پر مناسب حکم جاری کریں گے۔ اکرم شیخ عدالت سے اجازت لے کر روانہ ہو گئے۔
انور منصور نے استدعا کی کہ غداری کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیں، یقین دلاتا ہوں مشرف عدالت میں پیش ہوں گے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم کارروائی روکنے اور حاضری سے استثنٰی کی درخواست کو پہلے دیکھیں گے، انور منصور نے کہا کہ مشرف آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہو جائیں گے، خصوصی عدالت نے ضمانتی دستاویزات کل طلب کر لیں۔
انور منصور نے کہا کہ اس ہفتے بیرون ملک جا رہا ہوں، آئندہ ہفتے کے بعد سماعت رکھ دیں یقین دلاتا ہوں مشرف پیش ہو جائیں گے، انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف پہلے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں اب بھی ہوں گے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پرویز مشرف پیش نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے۔
انور منصور نے کہا کہ استثنٰی دینے سے آسمان نہیں گرے گا میرے موکل نے ضمانت بھی کرا رکھی ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پرویز مشرف آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ کے ساتھ جائیداد بھی ضبط کی جائے گی۔
مشرف کے وکیل انور منصور نے عدالت سے 18 فروری تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی پیشی سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا جو سہ پہر 4 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔