راوی وطنِ عزیز میں چین ہی چین لکھتا ہے۔ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں اور ہمسائے ”ماں جائے” ۔ 2 ہمسائے (بھارت اور افغانستان) تو ہمارے ساتھ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اُلفت ومحبت کی پینگیں بڑھاتے رہتے ہیں جس کا پوری قوم مشاہدہ بھی کرتی رہتی ہے۔ افہام وتفہیم کی اِن فضاؤں میں کہیںخودکُش حملے ہیں نہ بم دھماکے ۔معیارِ تعلیم اپنی رفعتوں کو چھو رہا ہے، سکولوں میں سوفیصد بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی زیرِنگرانی حصولِ علم میںمصروف ۔ یہی حال ہسپتالوں کا ہے۔ شیرخواروں کی شرحِ اموات نہ ہونے کے برابر، بیڈ خالی کہ کوئی مریض ہی نہیں۔ بیماریاں ”دُڑکی” لگا چکیںاسی لیے ادویات ”رُل” رہیںاور ڈاکٹر پکار تے پائے جاتے ہیں کہ ”ہم تو مائل بہ کرم ہیں ،کوئی سائل ہی نہیں”۔ اشیائے خور ونوش کی قیمتیںکمترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور کاروباری حضرات رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کے اِس ماہِ مبارک میں دونوں ہاتھوں سے رَبّ کی رحمتیں لوٹنے میں مصروف۔ کرپشن کا نام ونشان مِٹ چکا ہے۔ بیرونی ممالک میں ”رُلتے” اربوں ،کھربوں ڈالرز واپس آ چکے۔ بلوچستان کے سارے ”فراریوں” نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ”لوٹوں” نے پارٹی نہ بدلنے کا حلف اُٹھا لیا۔ زورآوروں نے سیاسی معاملات میںدخل اندازی سے توبہ کر لی۔ سیاسی جماعتوں نے گالی گلوچ چھوڑ کر ملک وملت کی خدمت کرنے کی قسم اُٹھا لی اور لکھاریوں نے اپنے ممدوحین کی بے جا مدح سے توبہ کر لی۔اب چونکہ ہمارے سیاسی رہنماء ملک کو جنت نظیر بنا چکے اور کرنے کو اُن کے پاس کوئی کام نہیں اِس لیے اُنہوں نے غداری، غداری کھیلنا شروع کر دیا تاکہ قوم متحرک رہے ۔یہ ہمارا مرغوب اور پسندیدہ کھیل ہے جو ہم عشروں سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیںکہ تلوار اگر میان میں رہے تو زَنگ آلود ہو جاتی ہے۔
ہم نے قائدِ اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تک کو بھی نہیں بخشا اور اُنہیں انڈین ایجنٹ قرار دے دیا۔ باچا خاں، عبدالولی خاں، جی ایم سیّد،سب کو غدارکہا گیا اور جماعت اسلامی تو تھی ہی پاکستان مخالف جماعت جو قیامِ پاکستان کے حق میں نہیں تھی۔ بینظیر بھٹو کو سکیورٹی رِسک اور میاں نوازشریف پر بھی غداری کا ٹھَپّہ لگ چکا ہے(یہ الزام لگانے والے وہی جن کے بارے میں میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ یہ تو کٹھ پُتلیاں ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے)۔ ممبئی بم دھماکوں پر میاںصاحب کے سَرل المیڈاکو دیئے جانے والے انٹرویو نے ہلچل مچا دی اور چاروں طرف سے غدار، غدار کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ سیانا نکلا تو صرف بلاول زرداری ،جس نے کہا کہ کسی کے ایک بیان پر اُسے غدار قرار دے دینا مناسب نہیں۔میاں صاحب کے انٹرویو پر سب سے زیادہ تحریکِ انصاف نے شور مچایا۔ شاید اُسے یقین ہوکہ اگلی حکومت اُسی کی ہے اور اُس کی راہ کا آخری کانٹامیاں نوازشریف ہی ہے اِس لیے اُس سے جان چھُڑانا ضروری۔ شنید ہے کہ عمران خاں نے ابھی سے وزیرِاعظم بننے کی ریہرسل شروع کر دی ۔ حلف اُٹھانے کے لیے شیروانی تو وہ 5 سال پہلے ہی سلوا چکے، اب اپنی حکومت کے پہلے 100 دِنوں کاپلان ترتیب دے رہے ہیں۔ ایسے میں وہ میاں نوازشریف پر غداری کا الزام محض حفظِ ماتقدم کے طور پر لگا رہے ہیں ۔ ویسے بھی کپتان جتنی دیر تک نواز، شہباز پر الزامات کی بارش نہ کر لے ،اُسے نیند نہیں آتی۔
ہم کسی پر الزام لگاتے وقت اُس کی سنگینی کا ہرگز خیال نہیں رکھتے کیونکہ ہم نے تو یہ الزام محض اپنی سیاسی دُکانداری چمکانے کے لیے لگانا ہوتا ہے۔ ہم شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار قرار دے کر آدھا ملک گنوا بیٹھے لیکن پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے اور یہی کھیل پھر کھیل رہے ہیں۔ اب میاں نوازشریف پر غداری کا الزام لگاکر اُن کے خلاف مقدمے درج کرنے کی درخواستیں دی جا رہی ہیں۔ یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف کو عین اُس موقعے پر جب 2018ء کے انتخابات سَر پر ہیں ،ممبئی حملوں کا ذکر چھیڑنا مناسب نہیں تھا لیکن جو باتیں میاں صاحب نے کہیں، وہ تو اِن سے پہلے جنرل احمد شجاع پاشا، جنرل محمود دُرانی، آصف زرداری اور رحمٰن ملک بھی کہہ چکے۔ پھر پہلے اِن لوگوں پر غداری کے مقدمے چلائے جائیں، میاں نوازشریف کی باری تو بعد میں آئے گی۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ الزامات کی سیاست سے کسی کی مقبولیت میں ”ڈینٹ” پڑ سکتا ہے تو یہ اُس کی بھول ہے۔ محترمہ بینظیر کو بھی سکیورٹی رِسک قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اُنہوں نے اعتزاز احسن کے ذریعے بھارت کو سکھوں کی فہرستیں پہنچائیںلیکن محترمہ کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ذوالفقار علی بھٹو پر بھی غداری کا الزام لگا اور کہا گیا کہ اُنہوں نے ملک کو دولخت کر دیالیکن پیپلزپارٹی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کے طفیل ووٹ لے رہی ہے، اب میاں نوازشریف غدارٹھہرائے جا رہے ہیں لیکن فی الحال اُن کی مقبولیت میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
البتہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے اِس بیان سے نوازلیگ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اُس کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔ میاں شہبازشریف کی زیرِصدارت منعقد ہونے والے نوازلیگ کے اجلاس میں بھی اِسی قسم کی کچھ آوازیں اُٹھیں اور میاں شہبازشریف کو بھی کہنا پڑا کہ جس شخص نے یہ انٹرویو کروایا، وہ میاں نوازشریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اِس انٹرویو کے بعد کچھ لوگ اپنا بستر بوریا سمیٹ کر تحریکِ انصاف میں جا بسے لیکن اُنہوں نے تو جانا ہی تھا۔ اِس سب کے باوجود نوازلیگ کی مقبولیت میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ آج بھی سرویزنون لیگ کو پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت اور میاں نوازشریف کو مقبول ترین لیڈر قرار دے رہے ہیں۔
اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ غداری، غداری کی اِس رَٹ کو عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ تحریکِ انصاف تو پچھلے پانچ سالوں سے متواتر میاں نوازشریف پر الزامات کی بارش کر رہی ہے، اُس نے ہر قسم کا حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب اُس کی ”غداری کمپین” جاری ہے جس کا ناکام ہونا اظہرمِن الشمس کیونکہ ووٹرز اِس قسم کی کمپین پر کبھی توجہ نہیں دیتے۔ اِس وقت نوازلیگ کو اگر ضرورت ہے تو صرف اِس اَمر کی کہ وہ اپنی صفوں کو انتشار سے بچائے۔ لوٹے ، ضمیر فروش اور فصلی بٹیرے تو ہر انتخاب سے پہلے اِدھر اُدھر پھدکتے ہی رہتے ہیںاور ایسے ضمیر فروشوں کی ”آنیاں ،جانیاں” سے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت پر اثرانداز بھی نہیںہوتیں۔ نوازلیگ سے کچھ فصلی بٹیرے ”پھُر” ہو چکے، شایدابھی کچھ باقی بھی ہوںلیکن جتنی دیر تک نوازلیگ اندرونی طور پر متحد ہے، وہ پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہی رہے گی اور ضمیر فروشوں کے جانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔