اللہ والو ! یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونی چاہیۓ کہ ہم سب پر یہ واجب ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہو کہ علاج امراض اور بیماریوں کی دواء دارو کی تین اقسام ہیں۔
1 ۔ ان میں سے پہلی قسم یہ ہے کہ مشروع و جائز اشیاء سے علاج کیا جاۓ ۔ اسے شارع حکیم نے پسند فرمایا ہے : اور اسی سے مراد وہ علاج و معالجہ ہے جس کے بارے میں مخصوص نصوص و احادیث وارد ہوئی ہیں مثلا قرآن پڑھنے، زمزم سے، شہد استعمال کرنے، عجوہ کھجور کھانے اور کلونجی ( حبۃ سوداء ) استعمال کرنے سے علاج ہے۔
اسی طرح بعض دیگر علاج و دوائیں بھی ہیں جن کے بارے میں صحیح نصوص وارد ہوئی ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ بعض اشیاء بعض مخصوص امراض کا علاج شمار ہوتی ہیں۔
2 ۔ علاج کی تین اقسام میں دوسری قسم یہ ہے کہ مباح اشیاء کے ساتھ علاج کیا جاۓ ۔ اور مباح اشیاء علاج سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے علاج کرنے کے بارے میں کوئی نص قرآن و حدیث میں وارد نہ ہوئی ہو جس سے پتہ چلے کہ وہ شرعی دواء و علاج ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں ممانعت وارد ہوئی ہو کہ اس سے علاج معالجہ کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہو تو ایسی چیز سے علاج کرنا مباح و روا ہے اور علاج معالجے کی یہ وسیع ترین قسم ہے اور اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے بلکہ یہ اتنی وسیع و لامحدود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : جسے اس کا علم ہو گیا اسے ہو گیا اور جو اس سے لا علم رہا وہ اس سے لاعلم رہا”۔
3 ۔ حرام طریقہ علاج : اللہ والو ! علاج کی تیسری قسم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کے ساتھ دواء دارو اور علاج معالجہ کیا جاۓ جو کہ حرام قرار دی گئی ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام اشیاء کے ذریعے علاج کرنے کو منع و حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ سنن ابوداود میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالی نے بیماری نازل کی ہے تو اس نے اس کی دواء بھی نازل فرمائی ہے اور ہر بیماری کی دواء بنائی ہے لھذا دواء دارو کر لیا کرو لیکن کسی حرام کردہ چیز سے دواء و علاج نہ کرو “۔ ( سنن ابی داود ) ۔
جبکہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے تعلیقا روایت بیان کی ہے جس میں ہے : اللہ نے تمھاری شفاء کسی ایسی چیز میں نہیں رکھی جسے اس نے حرام کر رکھا ہے۔ ( صحیح بخاری تعلیقا) ۔
حرام ھونے کی دو وجوہات : اللہ کے بندو ! حرام دواء وہ ہے جس میں دو امور یا چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پائی جاۓ۔ 1 ۔ ان دونوں میں سے پہلی یہ کہ شارع حکیم نے کسی خاص و معین چیز کے ساتھ علاج کو حرام قرار دیا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دواء کے لۓ شراب تیار کرنے والے سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا: یہ دواء نہیں بلکہ یہ تو خود بیماری ہے “۔ (صحیح مسلم)
اسی طرح سنن نسائی میں مروی ایک حدیث میں ہے : “ایک طبیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی چیز کی دوا کے طور پر ہیں ڈک کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے (اس غرض سے) اس کے قتل کرنے سے منع فرما دیا”۔ ( سنن نسائی ) ۔
ان دو امور میں سے دوسرا یہ کہ دوائیں اور علاج کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو کہ نجس یا حرام ہو جسے کہ شارع حکیم نے حرام قرار دے رکھا ہے جیسے بعض مردار جانوروں کے مختلف اعضاء جسم سے حاصل کردہ چیزیں مثلا مردہ گاۓ کے پھیپھڑے، خنزیروں کی انتڑیوں کے مخاطی (رینٹھ والے) حصے اور گھریلو پالتو گدہوں کے پیشاب یا گدہیوں کا دودھ وغیرہ ۔ یا پھر یہ کہ وہ طریقہ علاج ہی شرعی طور پر حرام ہے۔ ایسے ہی تنویم مغناطیسی (MRI) کے بعض طریقے بھی ہیں کیونکہ حصول شفاء کی غرض و غایت کو پانے کے لۓ یہ چیز کسی حرام وسیلے کو جائز و روا نہیں کر سکتی۔