تحریر: شاہد اقبال شامی وطن صرف میدانوں، پہاڑوں، دریائوں اور صحرائوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کے اس مسکن کا نام ہے جہاں آزادی کی ہوائیں چلتی ہیں، جہاں عدل و انصاف کے چشمے ابلتے ہیں اور جہاں انسانیت ظالموں اور مظلوموں کے گروہوں میں تقسیم نہیں ہوتی۔ہمارا پیارا وطن پاکستان قدرت کی ہر ایک نعمت سے مالامال ہے، کسی بھی ملک میں اتنی وافر معدنیات نہیں جتنی ہمارے ملک میں ہیں،ہ مارے پاس بہترین دریا،اونچے پہاڑ،سرسبز میدان اور خوبصورت صحرا ہیں،لیکن ان سب کے باوجود ہمارے ملک میں انسانیت ظالم اور مظلوم دو طبقوں میں تقسیم ہے،عدل و انصاف کے ادارے تو موجود ہیں لیکن وہاں عدل وانصاف کے معیار مختلف ہیں،ظالم کو مظلوم کا حق دے دیا جاتا ہے اورمظلوم کو اس کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے عدل و انصاف کے ادارے اپنا فرض قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ادا نہیں کرتے ۔حضرت ابوبکر صدیق نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ”تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کے میں دوسروں سے اس کا حق اس کو دلا نہ دو اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کر لو”۔لیکن ہمارے پیارے وطن کا عدالتی نظام بھی عجیب ہے جو قوت والے کو مظلوم اور ضعیف کو ظالم بنا دیتا ہے،جس کے پاس طاقت اور اختیار ہیں اس کے حق میں فیصلہ ہو جاتا ہے اور جس کے پاس حق پر ہونے کے باوجود غلط ذرائع نہیں ہیں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔
Supreme Court
ہمارے ملک میں اس وقت تک عدالتی اصلاحات پر کروڑوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں، ججوں کی تنخوائوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے اور ججوں کو یہ اختیار تک بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی تنخوائوں میں خود بھی اضافہ کر سکتے ہیں،کسی بھی سرکاری محکمے کے ملازمین کی اتنی بڑی تنخوائیں نہیں ہیں جتنی کی عدلیہ والوں کی ہیں،عدالت کا اپنے بارے میں اتنا سخت قانون ہے کہ اگر کسی بھی شخص کے موبائل کی گھنٹی کمرہ عدالت میں بج جائے توجج اس شخص کو توہین عدالت کی دفعہ لگا کر جیل بھی بھیج سکتا ہے،اتنے اختیار ہونے کے باوجود ججزحضرات انصاف دینے کیلئے اپنے اختیارات کو صحیح استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں انصاف ناپید ہے اور ہر شخص عدالتی نظام سے خائف ہے۔
ہمارے ہاں عدالتی نظام میں انصاف کے راستے پر سب سے بڑی رکاوٹ عدلیہ خود ہے،یہ بات سوفیصد درست ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے کرپٹ ہیں لیکن سب سے کرپٹ ترین ادارہ عدالتیں ہیں،لیکن یہ بات کہہ کوئی نہیں سکتا،اگرکوئی سر پھرا کہہ دے توعدلیہ کا قانون حرکت میں آتا ہے اور اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے کر نامعلوم دنوں کیلئے نامعلوم مقامات پر پہنچا دیتا ہے،اگر کوئی غور کرے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ عام سے عام سول جج کی طرز معاشرت ایسی ہے جس کی پاکستا ن کے بڑے سے بڑے کاروباری لوگ ویسی طرز معاشرت اپنانے کی تو دور کی بات اس کا تصور تک نہیں کر سکتے،ان کے بچے ملک کے مہنگے ترین سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی فیسیں کوئی بھی عدلیہ کا ملازم اپنی حق حلال کی تنخواہ سے ادا نہیں کر سکتا، ان کی بیویاں مہنگے ترین زیورات پہنتی ہے،مہنگی ترین گاڑیاں ان کے پاس موجود ہیں،عرب کے شہزادوں جیسے گھر ہیں ان کے پاس کبھی کسی نے سوچا یا ان سے پوچھا کہ جناب والا! یہ سب کہاں سے آتا ہے؟؟؟
یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ !جب تک پاکستان کا عدالتی نظام قانون کے دائرے میں نہیں آتا،جب تک ججوں کا احتساب نہیں ہوتا،اس وقت تک یہ ملک یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا،اس ملک میں مظلوم کو اس کا حق نہیں مل سکتا،ظالم کو گرفت میں نہیں لایا جا سکتا،انصاف کی فراوانی نہیں ہو سکتی !!!اور عدالتی نظام صرف “سوموٹو ایکشن”لینے سے صحیح نہیںہو سکتا،”سوموٹو ایکشن”لینے سے آج تک حل ہی کیا ہوا ہے؟کیا سٹیل مل،پی آئی اے،ریلوے،حبیب بینک سکینڈل،پنجاب بینک سکینڈل،این آر او،مہران کیس،میموکیس،ایل پی جی،این ایل سی،رینٹل پاورحج سکینڈل،کراچی ٹارگٹ کلنگ کیس،بابر،گیلانی اور شہباز شریف کسی ایک بھی کیس کا فیصلہ ہو ا؟؟؟یہ فیصلے ہوں گے بھی نہیں! کیونکہ جب تک ہماراعدالتی نظام نہ بدلے گا اس وقت تک ملک میں ایسے ہی واقعات اور ایسے ہی “سوموٹو ایکشن”ہوتے رہیں گے۔