کہتے ہیں کہ سبز پتے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ء بیان کرتے ہیں اور ہریالی ماحولیاتی آلودگی سے انسانی زندگیوں کو محفوظ رکھتی ہے ۔صبح سویرے کھلی فضا میں یا کسی باغیچے میں ننگے پاؤں چہل قدمی کرنا یا ہلکی پھلکی ورزش کرنا بھی انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ،صبح سویرے درختوں پر پڑے ہوئے” شبنمی قطرے”(اُوس) ایک ا پنا ہی اثر رکھتے ،جو لوگ سرسبز و شاداب ماحول کی آبیاری کرتے ہیں انہیں بھی ایک الگ ہی سرور حاصل ہوتا ہے ۔درخت لگانے کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔ایک درخت ایک سال میں 10ایئرکنڈیشنز کے برابر مسلسل ہوا دیتا ہے ،750گیلن برساتی پانی کو جذب کرتا ہے ، 60پونڈآلودہ ہوا کو صاف کرنے میں مدد دیتا ہے ، ہمیں ان کے فوائد سے آگاہی لازم ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں فرنگیوں سمیت دیگر اقوام حتیٰ کے مغل شہنشاہوں نے بھی درخت لگانے کے کام کو اہمیت دی،ان کے دور میں لگائے گئے درخت آج بھی ان کی یادگار کے طورپر قائم و دائم ہیں ۔اس وقت ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں7,78,000 کلومیٹررقبے اوربنگلہ دیش میں 22,000کلومیٹر رقبے پر درخت موجود ہیں،نیپال کے آدھے رقبہ پر درخت لگے ہیں اس کے برعکس پاکستان میں صرف 26,000کلومیٹر رقبے پر درخت لگے ہوئے ہیں، جو انتہائی کم ہیں ۔درخت جہاں ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں وہاں درختوں سے حاصل ہونے والی لکڑی بھی تعمیرات کیلئے ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتی ہے ، چھوٹے چھوٹے پودوں کو تناور درخت بننے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں درختوں کی آبیاری کی بجائے انہیں کاٹنے کا”دھندہ” بتدریج وسعت پا رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے درختوں کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے ، ملک بھر میں گذشتہ50سالوں میں کروڑوں درخت کاٹ دئیے گئے ،اس دھندے میں ”ٹمبر مافیا ” اورمحکمہ جنگلات کے افسران و ملازمین بھی شریک کار بنے ہوئے ہیں ۔کہیں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ،شہروں میں سڑکوں کی کشادگی کے نام پر اور دیگر علاقوں میں ہاؤسنگ منصوبوں یا انڈسٹریلائزیشن کی آڑ میں جنگل کے جنگل اجاڑ دئیے گئے ۔پاکستان کے اہم شہروں میں یہ پریکٹس معمول بن چکی ہے لیکن جڑواں شہروں میں راولپنڈی کی صورتحال اسقدر گھمبیرہو چکی ہے کہ شہر کی اہم شاہرائیں ہی درختوں سے محروم ہو چکی ہیں۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی تغیرات نے انسانوں کی زندگی کو موت کے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ،آبادی پر نسل انسانی کا دباؤ زمین کی وسعتوں میں کمی لا رہی ہے ،گذشتہ نصف صدی سے حضرتِ انسان نے تکمیلِ کائنات کا فریضہ تو بڑی ہی جانفشانی سے سرانجام دیا ہے لیکن حکومتی سطح پر اور نہ ہی معاشرتی سطح پر آبادی کے اس دباؤ کو کنٹرول کرنے کی سعی کی گئی ۔اور نہ ہی اس کے اثرات جاننے کی کوشش کی گئی ہے ،دنیا میں آنے والے ہر زی روح کو رزق دینے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے خود کر رکھا ہے اس لئے کوئی بھی انسان اپنے ربّ کی رحمتوں سے نااُمید نہیں ہے، اسی لئے اپنی تمام تر ذمہ داریوںسے بے نیاز ہو کر وسائل پر آبادی کا دباؤ بڑھانے میں لگا ہے ۔حضرتِ انسان نے اپنے لئے سہولیات پیدا کرنے کیلئے جدید آلات تک بنا ڈالے ہیں۔
بجلی سے چلنے والے آلات بھی ماحول میں حدت پیدا کرنے کا بنیادی سبب ہے ۔لیکن آبادی میں اضافے کے ساتھ ماحول کو خوشگوار اور صحت افزاء بنانے کا کسی کو خیال نہیں رہا۔ملک بھر میں خصوصاًراولپنڈی شہر میں سرکاری سطح پر اکثر و بیشتر ”شجرکاری” مہم چلائی جاتی ہے لیکن یہ مہم بھی زیادہ تر ”فوٹو سیشنز ” تک محدود رہی ،کہیں بھی لگائے گئے درختوں کی دیکھ بھال پر توجہ نہ دی گئی ۔ تقریباً20 سال قبل راولپنڈی اسلام آباد میں نجی سطح پر”پاکستان گرین ٹاسک فورس” نے ”سرسبز و شاداب پاکستان”یعنی( (Make the Country Green- Make the Country Cleanکے نام سے باقاعدہ شجرکاری مہم کا آغاز کیا تھا،جس نے اپنے ابتدائی سال میں 10ہزار پودے صرف راولپنڈی شہر میں لگائے ،اس تنظیم کے روح رواں ڈاکٹر جمال ناصر اور پروفیسر محمد شعیب شفیع تھے اور اب بھی ہیں ،جنہوں نے راولپنڈی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے پیدا شدہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے شجرکاری مہم کا آغاز کیا ۔اس مہم میں ان کے ساتھ معروف سرجن پروفیسر جہانگیر سرور و دیگر عہدیداران بھی شریک ہیںان کا یہ مشن بفضل تعالیٰ آج بھی جاری و ساری ہے ، اس تنظیم نے راولپنڈی کے ا لائیڈ ہسپتالوں ، گرلز اور بوائز سکولز اینڈ کالجز سمیت شہر کی اہم شاہراہوں کے اطراف میں پودے لگوائے جس میں مری روڈ، ڈبل روڈ، راول روڈ، 4thروڈ ، 5thروڈ، سیٹلائٹ ٹاؤن،نیو کٹاریاں ،سید پور روڈ وغیرہ شامل ہیں۔یہ تنظیم گزشتہ22سالوں میں 6لاکھ سے زائد پودے لگا چکی ہے ،یوں تو گذشتہ چند سالوں میں پاکستان ہارٹیکلچر اتھارٹی بھی شہر بھر میں پودے لگانے میں سرگرم عمل ہے ، اس کام میں پاکستان گرین ٹاسک فورس بھی ان کے شانہ بشانہ کام کو وسعت دے رہی ہے ، ڈاکٹر جمال ناصر کو ان کی انہی فلاحی خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان ممنون حسین کی طرف سے ”صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ” سے بھی نوازا جا چکا ہے انہیںماحولیات سمیت دیگر فلاحی کاموں کا وسیع تجربہ ہے،موجودہ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے باقاعدہ شجرکاری مہم کا آغاز کرکے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اور مشیر ماحولیات ملک امین اسلم اگر ڈاکٹر جمال ناصر کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے کی تدبیر کریں تو یہ ملک و ملت کے مفاد میں ایک احسن اقدام ہو گا ۔
یہ بات بھی لائق ستائش ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک بھر میں دیگر بہت سی تنظیمیں بھی فلاح عامہ کے کاموں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ،تاہم زیادہ تنظیمیں صحت ، تعلیم سمیت فلاح عامہ کے دیگر کاموں کو ترجیح دیتی ہیں ۔ان کی اپنے اپنے شعبوں میں کارکردگی بھی لائق ستائش ہے ۔سرکاری سطح پر سال میں دوبارموسم بہار اور موسم برسات میں ”شجرکاری ” مہم چلائی جاتی ہے ، محکمہ جنگلات اس حوالے سے شہریوں کو مفت پودے بھی فراہم کرتا ہے ، اور بعض لوگ اس مہم میں قومی فریضہ سمجھ کر شریک بھی ہو جاتے ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ پودے لگانے کے بعدبیشتر ادارے اور افراد ان کی آبیاری پر توجہ نہیں دیتے ۔جس کی وجہ سے لگائے گئے پودے ضائع ہو جاتے ہیں۔
یہ بات بڑی خوش آئند ہے اس بار ملک کے نئے وزیر اعظم عمران خان نے”نیاپاکستان” بنانے کیلئے سب سے پہلے ماحولیاتی آلودگی سے نجات حاصل کرنے کا عزم کیا ہے اور اس اہم مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے باقاعدہ ”گرین پاکستان پروگرام ”کا آغاز کر دیا ہے ،جس کے تحت 10ارب پودے لگانے کا اعلان کیا گیاہے ،اس اعلان کے ساتھ ہی ملک کے تقریباًتما م عسکری و سرکاری اہم ادارے بھی شجرکاری میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے میں لگ گئے ہیں۔جس سے توقع ہے کہ اس مہم کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے ۔اور اس پروگرام سے جہاں ہمیں وطن عزیز کو ماحولیاتی آلودگی سے نجات دلانے میں مدد ملے گی وہاں ہم پاکستان کو ایک خوبصورت ملک بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے ۔ اور آئندہ نسلوں کو موسمی تغیرات سے بچانے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com